Friday, January 30, 2009

عجائب خانہ

یہ تہذیب زیادہ پرانی نہیں بس آج سے ساڑھے تین سو سال پرانی ہے۔۔۔۔عجائب گھر میں‌سجے عجائبات دیکھتے ہوئے ایک آّواز ابھری ۔۔۔۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملک ہوا کرتے تھے ۔۔ ملک ؟۔ہاں ملک ۔۔۔یہ ورچوئل سوسائیٹیز تب ابھی ارتقائی مراحل میں تھیں۔۔۔لوگ زمین کے اس ٹکڑے کے حوالے سے جانے جاتے تھے جہاں‌ ان کی پیدائش ہوتی یا جہاں‌وہ رہ رہے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔طرز زندگی کے بارے میں‌نظریات کی بنا پر متفق ہونے والے انسان تب یوں یکجا نہیں‌تھے ۔۔۔۔ایک ہی ملک میں‌کئی نظریات کے لوگ بستے تھے۔۔۔۔۔مختلف طرز زندگی رہن سہن اور عقائد کے فرق کے باوجود وہ زمین کے ایک خطے پر یکجا ہوجانے کی بنا پر زمین پر بسنے والے باقی لوگوں سے متعصب رویہ رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ایسے میں کچھ ممالک نظریات کی بنا پر بھی بنے تھے مگر ان ممالک میں‌بسنے والے مختلف گروہوں میں‌نظریاتی اختلاف ان ممالک کے کمزور ہونے کی وجہ بن جاتا۔۔۔۔اور طاقتور ممالک انہیں اپنا غلام بنالیتے۔۔۔۔۔۔
تو پھر یہ سوسائیٹیز کیسے بنیںِ۔۔۔۔
شروع میں لین دین میل ملاقاتیں‌ اس زمانے کے جدید ترین نظام "انٹرنیٹ " پر ہونے لگیں ۔۔۔۔فیس ٹو فیس باہمی رابطے کم سے کم ہو گئے۔۔۔۔۔پھردنیا کے مختلف خطوں میں طرز زندگی سے متعلق ایک جیسا نظریہ رکھنے والے لوگ جدید نیٹ‌ ورکس کے ذریعے اکھٹے ہونا شروع ہوئے ۔۔۔۔اور یوں مختلف سوسائیٹٰز بنتی گئیں۔۔۔۔افراد کا جو گروہ طرز زندگی کے بارے میں‌بہترین نظریات رکھتا تھا ۔۔۔۔اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرتا تھا بس وہی آج سپر پاور ہے۔۔۔۔۔۔۔
پر تجسس نگاہیں‌لیزر شیلڈ‌میں‌سجی مختلف اشیا کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔موبائل سیٹ ،ڈٰیجیٹٌل کیمرے، کمپیوٹر اور بہت سی ایسی چیزیں تاریخ کو جاننے کے شوق کومزید ہوا دے رہی تھیں‌۔۔۔۔۔
یہ نقشہ کس چیز کا ہے؟‌
یہ غالبآ کسی قلعے کا ہے شاید کسی مذہبی قلعے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, January 16, 2009

کاسمیٹکس خوشیوں میں دلہن کہیں کھوگئی

زمانہ تھا کبھی وہ بھی جب دلہن کا گھونگھٹ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔دولہا خود کو خوش قسمت سمجھتا تھا کہ یہ گھونگھٹ‌ اسے ہی اٹھانا ہے۔۔۔۔بہت مسرور۔۔۔۔مگر اب یہ خوش قسمتی سب سے پہلے جس شخص کے حصے میں آتی ہے وہ ہے فوٹوگرافر۔۔جی ہاں پروفیشنل فوٹو گرافر۔۔۔۔
دلہن پر کم از کم 3سے 6 مزدوروں‌ کی مہینے بھر کی کمائی کے برابر سنگھار سے سب سے پہلے محظوظ ہونے کی سعادت کے لیے فوٹو گرافر پارلر میں‌ہی موجود ہوتا ہے۔۔۔۔
دوسری جانب بارات دلہن کے ہال پہنچ کر دلہن کا انتظار کررہی ہے۔۔۔۔۔ہال میں‌چاہے خواتین و حضرات کی نشستوں کا الگ الگ انتظام موجود ہو پھر بھی فوٹؤگرافرز،کیمرہ مینز،سروسز والے اور پھر دولہا دلہن کے ساتھ تصویر اتروانے کے خؤاہشمند حضرات " محرموں" میں ہی شمار کرلیے جاتے ہیں۔۔۔۔تاآنکہ ہر لحاظ سے سہولت رہے ۔۔۔۔۔۔اور یہ سہولت بوقت ضرورت کام بھی آسکے۔۔۔۔ویسے پیچھے نہ جانے کونسے شہزادے بچ جاتے ہیں۔
دلہن کا انتظارطویل ہوتا جاتا ہے۔۔۔۔بلآخر "دلہن آگئی" دلہن آگئی" کا شور مچتا ہے اور بارات دلہن کے استقبال کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے۔۔۔۔مگر جناب ابھی انتظار کی گھڑیاں ختم نہیں ہوئیں۔۔۔ہال کے داخلی دروازے پر ایک ہجوم ہے۔۔دلہن کی جانب سے فوٹوگرافر،دلہا کی جانب سے فوٹوگرافر،دلہن کی جانب سے مووی کیمرہ مین ،دلہا کی جانب سے مووی کیمرہ مین،پھر ان کے اسسٹنٹس اور ان کے کہیں پیچھے کھڑی بے بس بارات ایڑیاں اچکا اچکا کر دلہن کے دیدار کی ناکام کوشش میں مصروف۔۔۔کوئی بیس منٹ دلہن کی ہال میں انٹری کی کوریج کی جاتی ہے اور بلآخر کیمرہ مینز کی ٹٰیم کچھ دیر کو سائیڈ‌ پر ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔
دلہن کا اعتماد اور اسکی کیمرہ مینز خاص کر اپنی طرف والی فوٹوگرافر سے انڈر سٹٰنڈنگ دیدنی ہو تی ہے کہ یہ ہی وہ شخص ہے جو سنگھار کے بعد سب سے پہلے اسکے دیدار کا حقدار ٹہرا تھا۔۔۔۔۔۔۔
دلہن کی آمد پر دلہن کی سہیلیوں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔۔۔۔یار!‌ یہ ہم کسی اور ہال میں تو نہیں آگئے۔۔۔۔کیوں کیا ہوا! بھوک سے نڈھال ایک مری ہوئی آواز پوچھتی ہے۔۔۔۔یار یہ اپنی پنکی تو نہیں ہے۔۔۔۔وہی ہوگی۔۔۔یہ کھانا کب لگے گا میرا تو بھوک سے دم نکل رہا ہے۔۔۔قریب سے گزرتی پنکی کی امی جان کو تصدیق کے لیے پکڑ لیا جاتا ہے۔۔۔۔آنٹی یہ پنکی ہی ہے نا!؟۔۔۔ہاں ہاں بیٹا کیا ہوگیا ہے وہی ہے۔۔۔آنٹی کی کھسیانی آواز آتی ہے۔۔۔خیر سے بہت خوبصورت ہے میری بیٹی بس ذرا ناک کا تھوڑا مسلئہ تھا دیکھا میک اپ سے کیسا سیٹ ہو گیا"جی جناب اور کچھ آپ کی ناک کا بھی مسلئہ تھا وہ بھی اس خرچے سے کافی حد تک سیٹ ہو گیا ہوگا"
میک اپ کی تہوں کے نیچے اپنے کرب چھپائے چہرے۔۔۔۔اپنے حالات سے لڑتے لوگ۔۔۔۔کاسمیٹٰکس فنکشن میں خؤش نظر آنےکی بہترین اداکاری۔۔۔۔۔ان کاسمیٹکس خوشیوں میں دلہن کہیں کھوگئی۔۔۔۔
یہ تو تصویر کا ایک ادھورا رخ ہے اسی تصویر کے اسی رخ کا دوسرا حصہ دیکھیے۔۔۔۔
ہزاروں کا سنگھار۔۔۔۔۔لاکھوں کا جہیز۔۔۔۔لاکھوں کی بری۔۔۔۔ہزاروں کا شادی کے فنکشن کا خرچہ۔۔۔۔۔
ان کے لیے افورڈ‌ کرنا تو حق بجانب بنتا ہے جن کے پاس آمدنی کے" بہترین ذرائع" ًموجود ہیں۔۔۔وہ نہ خرچہ کریں تو انکاپیسہ سرکولیشن میں نہیں آئے گا۔۔۔۔اور داغے جانے کے لیے مہروں کی کوالٹٰی اعلی سے اعلی تر ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔
مگر ہزاروں میں کمانے والے لاکھوں‌کے اس خرچے کوکیسے افورڈ‌کریں اور کیوں افورڈ کریں؟؟۔۔۔۔۔
یہ بھی المیہ ہے کہ جس مقدس رشتے کی خوشی میں اہتمام خوب سے خوب تر کیا جاتا ہے اس کے ٹوٹنے کی شرح بھی معاشرے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
فلرٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد شاید اس سے پہلے کبھی اتنی رہی ہو۔۔۔جتنی اس کاسمیٹیکس خوشیوں کے دور میں ہے۔۔۔۔۔
ان کاسمیٹیکس خوشیوں نے سچی خوشیوں کو بہت مہنگا بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, January 9, 2009

قصہ کچھ فنون لطیفہ کا۔۔۔۔۔

یہ قصہ ہے فنون لطیفہ کا اور یہ قصہ ہے ان معصوم ذہنوں کا جوفنون لطیفہ سے متعلق اپنے ذہنوں میں‌اٹھنے والے سوالات کے جوابات کے لیے مذہبی رہنماوں کی طرف دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔
اور پھر اس مسلے پر باقاعدہ ٹاک شوز کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔جس میں کوئی علامہ صاحب یہ فرمادیتے ہیں کہ ہرگز نہیں‌،رقص کی ممانعت قرآن میں کہیں‌نہیں ۔۔اور معصوم ذہن کہتے ہیں کہ ہاں واقعی عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ ایک لطیف چیز بھلا کیسے حرام ہو سکتی ہے۔۔۔پھر مومسیقی کی محفلوں میں کوئی عورت نما مرد اعضاء کی شاعری یوں کرتا ہے کہ بجائے لطف کے گھن آنے لگتی ہے۔۔۔۔۔
یہی سوالات موسیقی کے بارے میں کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔اور "روشن خیال" ذہنوں کو دین کے قریب رکھنے کے غرض سے فرمادیا جاتا ہے کہ بس کچھ "خاص قسم کی موسییقی جائز نہیں ورنہ موسیقی کی ممانعت تو ہرگز نہیں۔۔۔پھر معصوم ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ خاص‌ قسم کونسی ہے۔۔۔۔۔۔ایک عام سا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جس طرح‌ہم معصوم لوگ "مولانا صاحب پچھلے سال ایک نماز میں‌سجدہ کرنا بھول گیا تھا ۔۔اسے اب ادا کروں تو نماز ہو جائے گی؟"جیسے سوالات کے لیے علامہ حضرات سے رجوع میں‌رہتے ہیں ۔۔۔اسی طرح رقص وموسیقی کے بارے میں ان ارشادات کے بعد آئندہ انہی سے رجوع کے محتاج ٹہریں گے۔۔علامہ صاحب فرمایے گا کہ ابرار کی نئ البم جائز ہے اور علامہ صاحب فرمائیں گے ہاں ایک گانے "پریتو " کے علاوہ باقی البم جائز ہے۔۔۔
پھر مختلف گلوکاروں کے صحیح‌ غٌلط ہونے کے بارے میں بھی ہم حسب عادت اور حسب روایت فرقے بنا ڈالیں گے۔۔۔۔۔پھر میرا ارادہ تو اس فرقے میں شمولیت کا ہے جس میں نیرہ نور کو سنناجائز ٹہرے۔۔۔۔
کچھ ایسی ہی صورتحال مصوری کے ساتھ رہی۔۔۔پہلے بتا دیا گیا کہ مصوری جائز ہے مگر صرف بےجان اشیا کی۔۔۔ جاندار اشیا کی تصویر کشی حرام ٹہری۔۔۔اس طرح درخت،پھول پھل کی مصوری اسلامی دائرے میں‌رہی۔۔۔سائنس نے ترقی کرکے بتا دیا کہ درخت،پھول پھل بھی جاندار ہوتے ہیں۔۔۔معصوم ذہن ایک بار پھر سوال بن کر رہ گئے۔۔۔۔۔
بات کو کسی تعصب کے بغیر سمجھنا ہو تو بات بہت سادہ سی ہے۔۔۔۔
بہت واضح الفاظ‌ میں بتا دیا گیا کہ حدود اللہ کیا ہیں اور پھر یہ بھی فرمادیا گیا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان کے قریب بھی مت جاو۔۔۔۔۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسانی خواہشات بے لگام جانور کی سی ہیں۔۔۔جنہیں لگام نہ ڈالی جائے تو انہیں نہیں پتہ ہو تا کہ ان کی حدود کیا ہیں۔۔۔۔۔اور چراگاہ کے قریب آئے بے لگام جانور کو اس کے اندر داخل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔۔۔۔
یہ بات سمجھنا بھی اہم ہے کہ ہوسکتا ہے کہ شراب نوشی کی کسی محٍفل میں بیٹھنے کی واضح الفاظ میں ممانعت نہ کی گئی ہو مگر چونکہ شراب کو حرام ٹہرایا گیا ۔۔۔ایسی کسی محٍفل میں اٹھنا بیٹھنا انسان کو اس طرف مائل کرسکتا ہے۔۔۔سو یہ عمل حدود اللہ کے قریب جانے کے مترادف ہوگا۔۔۔۔۔
یہی بات رقص و موسیقی کہ حوالے سے بھی ہے۔۔۔ہوسکتا ہے کہ ان کی ممانعت واضح الفاظ میں‌نہ ہو مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ انسانی جذبات کو بے لگام کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔سو ان کو ڈھٹائی کے ساتھ اپنی زندگیوں میں شامل رکھنا حدود اللہ کے قریب جانے کے مترادف ہے۔۔۔۔
ایک عام سا ذہن یہی سوچ پایا ۔۔۔آپ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں۔؛۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, January 6, 2009

کبوتروں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے

سردیوں کی نرم مزاج دھوپ میں چھت پر ٹہلتے ہوئے اچانک پروں‌کی پھڑ‌پھڑاہٹ نے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔پلٹ کر دیکھاتو خوبصورت دھلے ہوئے آسمان پر کبوتر اڑان بھر رہے تھے۔۔۔۔ایک لمحےکو ان کی اڑان پر بڑا رشک آیا۔۔۔مگر اگلے ہی لمحے نظران کے پنجرے پر پڑی۔۔۔۔بھلا ان کبوتروں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے۔۔۔مالک نے اپنی قید میں لیتے ہی پر کاٹ دیے۔۔۔پھر دانے دنکے کا محتاج بنادیا۔۔۔۔۔
ایک عرصہ اپنی قید سے مانوسیت کا یقین ہوجانے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔جو آزادی دی وہ پھرآزادی ہی نہ رہی۔۔۔۔۔۔پلٹ کر اسی قید میں آجانے کا گہرا خیال ننھے دماغوں پر نقش ہوچکا۔۔۔۔۔بار بار پر کاٹ ڈالنے کا عمل۔۔۔۔
پھر بلی کو دیکھ کر کبوتروں کا آنکھیں‌ بند کرلینا بھی ذہن میں آنے لگا۔۔۔۔۔یہ بھی مالک کی مرضی ہی ٹہری کہ وہ پنجرہ کیسا بناتا ہے۔۔۔اگر پنجرہ مضبوط ۔۔۔تو بلی سے بچت۔۔۔اور اگر پنجرہ کمزور رکھا گیا تو پھر کبوتر تو سوائے آنکھیں بند کرلینے کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔۔
یک دم ہی ان کی وقتی آزادی بے معنی لگنے لگی۔۔۔ان کی اس کھوکھلی اڑان سے خوف آنے لگا۔۔۔۔ان کے شکستہ حال پنجرے کو دیکھ کر ان پر ترس آنے لگا۔۔۔۔
کبوتروں کا پنجرہ۔۔۔۔۔ان کی قید۔۔۔۔۔۔ انکا قید سے لگاو۔۔۔اوران کا طرز زندگی۔۔۔کسی قوم سے مشابہ لگا۔۔۔۔۔۔۔مگر کس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باوجود کوشش کے یہ یاد نہ آسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, January 2, 2009

گناہ کا لطف

دو غلط فہمیاں‌ نہ جانے ہمیں‌کہاں سے کہاں‌لے جائیں ۔۔۔منزل کے بہت قریب ہو تے ہوئے بھی ہم کہیں‌بہت دور ہی نہ ہوجائیں ۔۔۔پہلی خوش فہمی جس میں‌ہم میں‌سے ایک واضح اکثریت مبتلا ہے کہ ہم وہ امت ہیں کہ ہماری بخشش ہو چکی ہم اپنے کردہ گناہوں کے لیے بہت تھوڑے عرصے کےلیے دوزخ میں جائیں‌گے اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت ہمارا نصیب ٹھرے گی۔۔۔۔افسوس ہمارا دھیان کبھی اس امت کی طرف نہیں‌گیا جو ہم سے پہلے ایسے ہی دعوے کی مرتکب ہوئی اور قرآن میں ان سے بیزاری اور عذاب کی وعید کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔
ذرا سوچیے تو ایک لمحے کے لیے فرض ‌کیجیے کہ آپ پچھلی امت کا ایک فرد ہیں اور میں‌اس امت میں سے ہوں۔۔۔۔
آپ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں‌اور میں۔۔۔۔گناہوں‌کے بارے میں‌لاپرواہی کا شکار ہوں کیونکہ میری تو بہرحال بخشش ہو ہی جانی ہے۔۔۔۔۔
اب ہو تا یہ ہے کہ ہم میدان حشر میں‌کھڑے ہیں‌۔۔۔آج یوم حساب ہے۔۔۔یہی وہ دن ہے جب ہر کسی کو پورا پورا انصاف ملے گا۔۔۔مگر یہ کیا! جب آپ کے اعمال کو تولا گیا تو کچھ گناہ زیادہ ہی ہوگئے۔۔اور آپ دوزخ میں۔۔میں چونکہ ایک خاص امت سے تھی لہذا کچھ دیر دوزخ‌اور پھر جنت۔۔۔۔۔
کیا انصاف کے دن اس نا انصافی پر آپ احتجاج نہیں‌ کریں گے۔۔۔بھلا جو عدالت لگی ہی انصاف کے لیے،وہاں سے ایسی بےانصافی کی آس ہم کیوں لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔
دوسری خوش فہمی جو ہم نے اپنی کم فہمی کی بناء پر خود پر طاری کی ہوئی ہے،اور ہر دور میں‌نوجوان نسل اسکا خاص شکار رہی ہے وہ یہ کہ "گناہ کا کوئی منفی اثر لیے بغیر اسکا لطف اٹھایا جاسکتا ہے"حیرت ہے بھئی!
تھوڑا پیچھے جائیے بلکہ کچھ زیادہ پیچھے جائیے تو وہ دور بھی تھا جب متوسط گھرانوں اور خاص کر مذہبی گھرانوں میں‌ریڈیو کے خلاف مزاحمت رہی۔۔۔"گناہ کا کوئی منفی اثر لیے بغیر اسکا لطف اٹھانے" کے نظریے کے پیروکار نوجوانوں نے بغاوت کی۔۔۔۔اور آہستہ آہستہ وہ مزاحمت دم توڑ گئی۔پھر یہی کہانی ٹٰی وی ۔وی سی آر۔ڈش اور پھر کیبل کی آمد پر دہرائی گئی۔۔۔۔۔۔دقیانوسی لوگوں کوبھی آہستہ آہستہ ان چیزوں کے فوائد گنوا کر قائل کر لیا گیا۔۔۔۔۔۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہو تی ۔۔۔کہانی تو یہاں‌سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
مغرب میں "پاور فل افیکٹ آف میڈ یا" پر ہونے والی ریسرچز کے نتائج سے بے خبر ہم "مشرقی"لوگ گناہ کا لطف اٹھاتے رہے اسکا کوئی منفی اثر لیے بغیر۔۔۔۔
ان کی ریسرچز کے نتائج "بند ڈبے سے باہر آنے لگے اور ہمارانظریہ ڈبے میں بند۔۔۔۔
ڈبے پر نظر آنے والے بے لگام کردار ہمارے ارد گرد بھی چلنے پھرنے لگ گئے۔۔۔ان کی "باہم گفتگو کا مسلئہ "چھوٹی ڈبیا"نے حل کردیا۔۔۔۔۔۔
اب ذرا ان معاشروں پر ایک نگاہ ڈالیے جہاں اس نظریے کے" پیروکار " اپنے معاشرے کو اس انتہا پر لے گئے ۔۔۔کہ وہاں لوگ اپنی ذات اور شناخت کے بارے میں‌خود ایک سوال بن کر رہ گئے۔۔۔۔
ذرا سوچیے کہ محض" گناہ کے لطف "کی ہم اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ہم اسی رفتار سے چلتے رہے تو ایک دہائی سے بھی کم کا عرصہ رہ جائے گا۔۔۔اپنی ذات کے بارے میں ایک سوالیہ نشان بننے میں۔۔۔۔۔۔
اب کیا کیا جائے۔۔۔۔؟؟؟‌کیا ہم اپنے ٹی وی ،پلئیرز وغیرہ گلیوں میں لا کر توڑ ڈالیں۔۔۔۔اور دنیا کے سامنے خود کو ایک تماشا بنا ڈالیں۔۔ہر گز نہیں۔۔۔ہمیں‌پہلی اور آخری تبدیلی اپنی سوچ میں لانا ہو گی۔۔۔۔۔
گناہ کو گناہ سمجھ کر کیجیے۔۔۔ اس کے بارے دلائل اکھٹے کرنے کی کوشش کی بجائے ۔۔۔۔۔۔یہ طرز فکر آپ کو ایک نہ ایک دن گناہ سے بیزاری پر ضرور مائل کر دے گا۔۔۔۔۔