Tuesday, January 12, 2010

ہلتی ہوئی چھڑی

چلہ کاٹنے والا شخص41گھنٹے بعد قبر سے زندہ نکل آیا،یہ شخص ایک لمبے عرصے سے بیماری اور پریشانی میں مبتتلا تھااس کے ’’جعلی پیر ‘‘نے اس کے تمام پریشانیوں کا حل یہی حل بتایا تھا کہ وہ خود کو ایک قبر میں دفن کر لےتو اپنی منزل پالے گا اور اس کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
صفدر علی نامی نوجوان نے دفن ہوتے ہوئے قبر میں ایک سوراخ رکھ لئا جس میں سے ایک ڈنڈی باہر نکال دی اور اپنے ماں باپ سے کہا کہ جب تک ڈنڈی ہلتی رہے سمجھنا میں زندہ ہوں اور جب یہ ہلنا بند ہوجائے تو مجھے یہاں ہی دفن رہنے دینا ......
اس کے ماں باپ نے بے چین ہوکر اسے قبر سے نکال لیا.....
صفدر علی کی کہانی سے ایک قوم کی داستان یاد آتی ہے ....
یہ قوم غربت ،جہالت کے مرض میں مبتلا تھی ....آمریت کا ایک عرصے سے راج تھا ......
اس قوم کو بھی چند’’جعلی پیروں‘‘نے یہی بتایا کہ وہ خود کو ’’جمہوریت کی قبر ‘‘میں دفن کر لیں تو وہ منزل پالیں گے اور ان کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
سو اس قوم نے بھی بجلی،گیس ،بیروزگاری اور ناجانے کتنی ہی پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنے اور اپنی منزل پانے کے لئے خود کو ’’جمہوریت‘‘ کی قبر میں اتار لیا.......
جہاں اس کا دم پہلے سے بھی زیادہ گھٹنے لگا .....
صفدر علی کی طرح اس قوم نے بھی اس قبر میں ایک سوراخ کر کے عدلیہ کی چھڑی رکھ لی جو اس کے زندہ ہونے کی تصدیق کر تی رہی .....
المیہ تو یہ ہے کہ صفدر علی کی طرح اس قوم کے کوئی ماں باپ بھی نہیں ہیں جو اسے وہاں سے نکالنے کے لئے بے قرار ہوجائیں .....
بس جمہوریت کی قبر کے سوراخ سے نکلی ایک ہلتی ہوئی چھڑی ہے ........
کیا جانے یہ چھڑی کب تک ہلتی رہے .....

13 comments:

  1. اچھی بات ہے ۔۔ جس کو دیکھو حکومت کی ٹانگ کھینچتا ہے ۔۔ جس کو دیکھو اپنے ہی ملک کو اپنے ملک والو کو کوستا ہے ۔۔ خود کہا سے ہے اس کے بر خلاف

    صفدر نے جو کیا اس کے زندگی کا ایک سیاہ یا سنہرا کچھ باب ہوگا ضرور ۔۔ حکومت میں بھی دو آنکھ دو ہاتھ والے انسان ہی ہیں اور عدالت میں بھی

    حکومت کی ہوگئی ۔۔ عدلیہ کی بھی ہوگئی اور صفدر کی بھی ان جیسوں کی بھی ہوگئی ۔۔ کبھی اپنے بارے میں بھی تو لکھیں کچھ مزید ، حیرانگی ہے اتنی مصروفیات میں بھی لوگوں کو ٹی وی دیکھنے کا ٹائیم مل جاتا ہے !

    ReplyDelete
  2. اچھی کوشش ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قوم نے زیادہ عرصہ تو آمریت کی قبر میں گزارا ہے جب کبھی کوئی قبر سے نکال دے تو دوبارہ چلہ کاٹنے کے لیے بیتاب ہوجاتے ہیں ہم لوگ.

    ReplyDelete
  3. کیا آپ واقعی سنجیدگی سے سمجتھی ہیں کہ ہماری قوم کو جمہوریت اور آمریت کے فرق کا پتہ ہے۔۔۔۔
    ایک اونٹ سے کسی نے پوچھا تھا کہ تمہارے لئے چڑہائی مشکل ہے یا اترائی۔ اونٹ نے جواب دیا، ہر دو لعنت۔۔۔۔

    ReplyDelete
  4. اویس:
    شکریہ ...میرے بارے میں کوئی جان کر کیا کرے گا ...جتنا پروفائل میں لکھا ہے یہ بھی کافی سے زیادہ ہے .....
    عمر احمد بنگش
    بہت بہت شکریہ ....

    ReplyDelete
  5. راشد کامران
    بہت شکریہ ....
    آمریت کے مرض کو دور کرنے کے لئے ہم جمہوریت کی قبر میں اتر جاتے ہیں جب کہ وہاں دم اور گھٹنے لگتا ہے ....سو ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی ہمارا مرض آمریت ہی ہے ......

    ReplyDelete
  6. جعفر
    جمہوریت اور آمریت کا فرق سمجھانے کے لئے تو ہمارے ’’جعلی پیر ‘‘موجود ہیں مگر ’’جمہوریت ‘‘کا اصل مفہوم سمجھانے والے کوئی نہیں ہم ناداں بادشاہت کو بھی جمہوریت ہی سمجھ بیٹھے ہیں....


    عنیفہ جی
    بہت بہت شکریہ

    ReplyDelete
  7. محترمہ! آپ کہاں غائب ہیں؟ کیا اردو بلاگستان سے کوئی ناراضگی ہے؟ ہم تو آپ کو سال کے بہترین نئے بلاگز میں شامل دیکھنا چاہ رہے تھے لیکن آپ تو تلاش کرنے کے باوجود نہ ملیں۔
    بہرحال آپ کی تحریر دیکھ کر دلی اطمینان بھی ہوا کہ میدان چھوڑ کر نہیں گئی ہیں اور ساتھ میں اچھی تحریر پڑھنے کوبھی مل گئی۔ آتی جاتی رہا کیجیے، اچھے خیالات کے حامل افراد کی اشد ضرورت ہے ہماری قوم کو۔ جیتی رہیے۔

    ReplyDelete
  8. جمہوریت کو برباد کرنے والے بھی جمہوری لوگ ہیں.

    ReplyDelete
  9. ابو شامل
    فہد بھائی بہت شکریہ ...غائب کہاں بس یہا ں ہی تھی...اور سال کے بہترین بلاگر ز میں تو انہیں ہی ہونا چاہیے جو اس کے حقدار ہیں میں تو ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہوں اس قابل کہاں....
    اآپ کی شفقت و عنایت کا بہت بہت شکریہ...
    اب انشائ اللہ لکھتی رہوں گی ...سوچا تو یہی ہے ....آگے جوخدا کو منظور

    ReplyDelete
  10. فرحان دانش
    اصل میں یہ لوگ جمہوریت کا نام اشتعمال کر تے ہیں ،ورنہ تو ان کی پارٹیز میں بھی نری بادشاہت ہے ...بادشا ہ پھر اس کے بعد ولی عہد....ملک کے تخت و تاج کی وراثت....نسل در نسل.....

    ReplyDelete
  11. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete