Tuesday, January 26, 2010

خبر ہے کہ

خبر ہے کہ:
ٹوکیو:انسان کے دماغ کا کنٹرول حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی ایجاد
ٹوکیو: سائنسدانوں نے انسان کے دماغ پر کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوجی برین مینی پیولیشن Brain Manipulationایجاد کی ہے۔ اس طرح انسان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے۔فی الحال مذکورہ ٹیکنالوجی امریکی خفیہ ادارے مخصوص افراد پر استعمال کررہے ہیں تاکہ ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جا سکیں۔

اگر یہ ٹیکنالوجی کچھ عرصے تک عام ہوگئی تو پھر یقینا لوگوں کو اورخاص طور پر خاص لوگوں کو اپنے دماغ پر پاس ورڈ لگانا پڑے گا ۔اور اگر پاس ورڈ لگانے کا طریقہ آگیا تو پھر ان پاس ورڈ کو ہیک کرنے کا طریقہ بھی نکال لیا جائے گا ۔
تو پھر چلئے کچھ آگے ۔۔۔
خبر ہے کہ :
امریکی صدر کے دماغ کا پاس ورڈ ہیک کر لیا گیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر کے دماغ کا پاس ورڈ ہیک کر لیا گیا ہے ۔دماغ کا پاس ورڈ ہیک ہونے کے فوراً بعد صدر نے ہنگامی بنیادوں پر عوام سے خطاب کیا ۔
اس خطاب کا متن یہ ہے :
بھائی اور بہنو ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس دماغ کا پاس ورڈ ہیک کیا جا چکا ہے ۔سو اب میں آپ سے مخاطب ہوں ۔میں کون ہوں یہ بتانا ضروری نہیں ہے ۔ہاں مگر میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں صدر عوا م کو جواب دہ ہوتا ہے میرے لئے یہ بات حیران کن ہے مگر چونکہ میں عوام کا احترام کرتا ہوں اس لئے آپ کو جواب دینے کا موقع دینے کے لئے آپ سے خطاب کر رہاہوں ۔میں آدھے واشنگٹن کی زمین اپنے نام منتقل کر رہا ہوں ۔اقتدار اور پیسے کی کوئی ہوس نہیں مجھے، اس لئے باقی آدھی زمین میں اپنے بیٹے کے نام منتقل کر رہا ہوں ۔
تالیاں
بہنو اور بھائی میرا دل اچانک ہی چاہنے لگا ہے کہ میں جگہ جگہ جا کر بھیک مانگو ں سو آپ سب کو اب محنت اور ایمانداری دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں میں آپ کے لئے اپنی بہنا تے بھراواں لئے جگہ جگہ بھک منگا گا ۔۔ڈونٹ یو وری ۔۔میں سب تو پہلاں چین جاواں گا فیر امریکہ نئی امریکہ تو میں آگیا ہوں میں پھر ۔۔پھر ۔۔بس میں پوری دنیا جاؤں گا آپ کے لئے ۔۔
مجھے سب چور نظر آرہے ہیں ۔۔میری سب پر نظر ہے ۔۔
(یہ تو کسی تھرڈ ورلڈ کا بندہ لگتا ہے ۔مجمع میں ایک سرگوشی ہوتی ہے )
اوئے خاموش اوئے دادا میرا مرا ہے پر دادا میرے بچوں کا مرا ہے ''تمہارے کو پیٹ میں کیا تکلیف ہے !؟''
میں نے جمہوریت کے لئے ،جمہوری زمینوں کے لئے ،جمہوری دولت کے لئے اور آپ سب کے لئے اقتدار میں آنے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔اب یہ جو میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ۔۔ان کو میں سب سمجھتا ہوں ۔۔
میں مانتا ہوں کہ میرا قصور صدر ہونا ہے اور اس سے بھی بڑا قصور یہ ہے کہ میں واشنگٹن کو اپنے نام کرنا چاہتا ہوں ۔۔مگر یہ سب آپ کے لئے اپنے بھائی بہنو کے لئے ۔۔۔
مجھے پتا ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے ۔۔مگر چونکہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے یہ بھی میرا قصور ہے ۔۔
آپ سب تسلی رکھو میں امریکہ کو ریاستو ریاستی نہیں ہونے دوں گا مطلب میں اسے تقسیم نہیں ہونے دوں گا ،یہ بھی میرا ایک اور قصور ہے ۔۔اوئے کیڑے مکوڑو تم کیاجانو !پورے امریکہ پر اقتدار کا نشہ ہی الگ ہے ۔۔۔
میرے بھائی بہنو میں نے میرے خاندان نے دولت کے لئے معاف کیجئے گا جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں ۔۔یہ بھی میرا قصور ہے ۔۔
ہم نے اپنی زندگیاں اقتدار کے لئے معاف کیجئے گا ہم نے اپنی زندگیاں جمہوریت کے لئے وقف کر دی ہیں ۔۔
ہم امریکہ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے ۔۔
ۤآپ میری اس بات کا یقین اس بات سے کریں کہ میرا دو سال کا پوتا بھی کھیلتے کھیلتے یہ کہتا ہے
امریکہ چاہیے ،امریکہ چاہیے ،امریکہ چاہیے
امریکی کچھ سمجھے اور کچھ نہ سمجھے مگر تالیاں ۔۔۔۔

Wednesday, January 20, 2010

شاعر حضرات اور قلبی واردات

بھائی جان کی شاہکار تحریر حال ہی میں نظر سے گزری ،جس میںانہوںنے خواتین شاعرات کی قلبی وارداتوں سے انکار کا شکوہ کیا ہے ،شاید کہیں یہ گمان ہو کہ اگر قلبی وار داتوں کو اعتراف موجودہ نسل کی شاعرات کر لیں تو بیشتر کی زبان پر ایک ہی نام ہو ۔۔۔۔یوں بد نام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
ہمارا خیال ہے کہ بھائی جان کی شاعر حضرات کی قلبی وارداتوں پر روشنی ڈالنی چاہیے تھی کیوں کہ ان سے بہتر یہ کام کوئی نہیں کر سکتا ماشاء اللہ آپ خیر سے شاعر بھی ہیں ۔۔۔۔
ہم نے سوچا تھا کے اردو محفل پر ان کی تحریر کے نیچے یہ دھمکی نما جواب درج کر آئیں کہ کچھ اس بارے میں بھی لکھیئے مگر پھر سوچا دھمکی تو بزدل لوگ دیا کرتے ہیں ہم خود ہی کچھ لکھ لیتے ہیں ۔۔۔اور پڑھ بھی خود ہی لیں گے ۔۔
تو جناب بات کرتے ہیں شاعر حضرات کی ''قلبی وارداتوں ''کی ۔۔۔لیکن پہلے اگر ہماری تحریر کو بچے پڑھ رہے ہیں تو ان کی انفارمیشن کے لئے بتاتے چلیں کہ قلبی واردات کہتے کسے ہیں ۔تو جناب بچو !قلب کہتے ہیں دل کو اور واردات کہتے ہیں ۔۔بھئی کسی بھی چوری ،ڈکیتی وغیرہ وغیرہ کو ۔۔۔قلب کے آگے ''ی''کیا ہے ارے یہی تو وہ ''ی''ہے جس کی وجہ سے قلبی واردات رونما ہوتی ہے ۔میرا خیال ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔۔۔اگر نہیں سمجھے تو آپ واپس اسی راستے سے چلے جائیں جہاں سے اس بلاگ پر آئے ہیں ۔۔ویسے اگر آپ گوگل سرچ سے آئے ہیں تو یہ تو بتاتے جائیں کہ آپ تلاش کیا کر رہے تھے ۔۔۔کچھ لوگ ہمارے بلاگ پر سارہ پیلن کی تلاش میں آپہنچتے ہیں ۔۔ہمیں ان سے ہمدردی ہے۔۔اور اگر آپ سارہ پیلن کو نہیں جانتے تو ہمیں آپ سے بھی ہمدردی ہے ۔۔۔بھئی وہی سارہ پیلن جو ہمارے صدر صاحب کی ''واردات ''معاف کیجیے گا ''قلبی واردات ''کی وجہ سے پاکستان میں مشہور ہوگئی تھیں ۔
معاف کیجیے گا بات کہاں سے کہاں چلی گئی بس کیا کریں بات نکلے گی تو پھر دور تک تو جائے گی نا !
ہم بات کر رہے تھے کہ شاعر حضرات کی قلبی واردات کی ۔جناب قلبی واردات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔۔تاریخ میں ایسے واقعات بھی ہیں جب کسی شہزادے نے ڈولی میں سے جھانکتا ہوا محض دوپٹے کا ایک پلو دیکھ لیا اور جناب بس پھر کیا تھا قلبی واردات ہوگئی ۔۔۔
ایک بات یہ بہت اہم ہے کہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔۔۔شاعر ہونے اور خاص کر مشہور شاعر ہونے کے لئے قلبی واردات کاہونا اتنا اہم نہیں جتنا اس کا بر ملا اور بار بار اعتراف کرنا ۔۔۔ورنہ لوگ آپ کو دو ٹکے کا بھی نہیں جانتے ۔۔۔۔سو بہت سوں نے مشہور ہونے کے لئے کئی کئی وارداتوں کے رونماہونے کا اعتراف کیا تب کہیں جاکر نام ور ہوئے ۔۔
پچھلے ایک سال کے دوران ہمیں ہر بڑے شاعر کی برسی پر ان کے احباب میں سے کسی کی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔۔۔اور نہایت معذرت کے ساتھ ہم اس نتیجے میں پہنچے ہیں کہ اگر کوئی اس قدر ''ٹن ''حالت میں رہے گا تو پھر ''واردات'' کا ہونا تو عجب نہیں ،نہ ہونا البتہ ایک عجیب واردات ہوگی ۔۔۔
مے نوشی اور جام و سرور کا ذکر یوں ملا گویاہمیں محسوس ہونے لگا کہ اگر اس دنیا میںکوئی بڑا نام بنانا ہے تو پھر ۔۔رہنے دوابھی ساغر ومینا میرے آگے
''قلبی واردات ''کی اہمیت کا اندازہ آپ یہاں سے لگائیے کہ ایک سید زادے نے تو شاعری میں بڑا نام پیدا کرنے کے لئے اپنے ابا حضور کی نصیحت پر باقاعدہ قلبی واردات کا اہتمام کیا اور عشق فرمایا ،اور یوں یہ سعادت مند بیٹا اپنے ساتھ ساتھ اپنے ابا حضور کا نام بھی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے رقم کر گیا ۔۔۔
قربان جائیے ایسے سعادت مند بیٹے اور اس کے ابا پر۔۔۔
سو ثابت ہوا کہ قلبی واردات شاعری میں بڑا نام پیدا کرنے کے لئے از حد ضروری ہے ۔۔۔۔اگر ذرا غور فرمائیے تو شاعرات کے لئے بھی یہی اصول بہت حد تک لاگو دکھائی دے گا ۔۔۔
ایک بڑے شاعر کی قلبی واردات کا ذکر ایک مصنف کی زبانی دے رہے ہیں ،شاعراور مصنف کا نام ہم نقصِ امن کے خطرے کے پیش نظر نہیں دے رہے ،کیونکہ بہرحال ان کے مداحوں کی کمی نہیں ہے ۔۔۔اور ہم اپنے بلاگ پر دنگا فساد بالکل بھی پسند نہیں کرتے ۔۔۔سو اگر آپ نام پہچان جائیں تو یہ آپ کا اپنا حسن ِنظر ہوگا اسے اپنے تک ہی محدود رکھیئے گا ،
مصنف شاعرحضرت کی زبانی لکھتے ہیں :
''غالباً نویں یا دسویں جماعت کے دن ہوں گے جب وہ زندگی میں آئی تھی ۔مجھ سے ایک سال آگے تھی وہ ۔مجھے اس کے خدو خال اب بھی یاد ہیں ۔وہ بہت حسین تھی ،شاید اس لئے کہ اس عمر میں سبھی لڑکیاں حسین ہوا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔وقت گزرتا چلا گیا اور پھر اک روز اس کی شادی ہوگئی ۔کتنا ہی عرصہ اس فسوں میں گزار دیا کہ وہ شریک سفر کیوں نہ ہوسکی ۔وہ چلی گئی تو پھر جو در ملا اسی در کے ہوگئے ۔کتنے ہی حسین چہرے تھے ،جو قریب آئے ،وقت گزارا اور چلے گئے ۔''
ماشاء اللہ یہ یاد نہیں کہ نویں میں تھے یا دسویں میں یہ یاد رکھنا شاید ضروری بھی نہیں تھا ۔۔۔آگے ملاحظہ ہو اس محبت کا انجام :
''پھر یوں ہوا کہ اک روز اچانک اس سے ملاقات ہوگئی ۔اسے دیکھا اور بس دیکھتے رہ گئے ۔رخسار ڈھلکے ہوئے ،ہونٹوں پر ویسی زندہ مسکراہٹ بھی نہیں ،ویران ساچہرہ ،آنکھیں کشش سے خالی ،بدن بے ڈول ور بھدا ۔اور وہ جس کے حسن کو نگاہ سہہ نہیں پاتی تھی اب اس کے ساتھ وقت گزارنا مشکل تھا ۔اس ملاقات کے بعدکبھی اسے کھو دینے کا احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔''
قربان جائیے اس سادگی پر ۔۔۔آج کے دور میں جب ڈھلکے رخسار ،بڑھے پیٹ اور بہت سی خامیاں ،ٹمی ٹک،لائپو سیکشن ،بو ٹیکس،اور ناجانے کیا کیا کچھ جو کاسمیٹکس سرجری اور لیزر تھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے جس سے سب خامیاں اور وقت کی دی گئی نشانیاں مٹ جاتی ہیں اور آپ کا محبوب پھر سے ''نیا کا نیا ''ہوجاتا ہے ۔۔۔۔اگر آپ اس میں محض حسن ہی تلاشتے ہیں تو ۔۔۔۔
یہ بھی عجب ستم ہے یا واردات ہی کہہ لیجیے کہ گر ''ہیروئن ''آپ کو نہ ملی تو اس کا زہر ساری نسل کی رگوں میں اتارنے چل پڑے ۔۔۔جس عمر میں انہیں آگے بڑھنا ہو اس میں وہ ''در در کی خاک چھاننے ''نکل کھڑے ہوں ۔۔۔۔

Tuesday, January 12, 2010

ہلتی ہوئی چھڑی

چلہ کاٹنے والا شخص41گھنٹے بعد قبر سے زندہ نکل آیا،یہ شخص ایک لمبے عرصے سے بیماری اور پریشانی میں مبتتلا تھااس کے ’’جعلی پیر ‘‘نے اس کے تمام پریشانیوں کا حل یہی حل بتایا تھا کہ وہ خود کو ایک قبر میں دفن کر لےتو اپنی منزل پالے گا اور اس کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
صفدر علی نامی نوجوان نے دفن ہوتے ہوئے قبر میں ایک سوراخ رکھ لئا جس میں سے ایک ڈنڈی باہر نکال دی اور اپنے ماں باپ سے کہا کہ جب تک ڈنڈی ہلتی رہے سمجھنا میں زندہ ہوں اور جب یہ ہلنا بند ہوجائے تو مجھے یہاں ہی دفن رہنے دینا ......
اس کے ماں باپ نے بے چین ہوکر اسے قبر سے نکال لیا.....
صفدر علی کی کہانی سے ایک قوم کی داستان یاد آتی ہے ....
یہ قوم غربت ،جہالت کے مرض میں مبتلا تھی ....آمریت کا ایک عرصے سے راج تھا ......
اس قوم کو بھی چند’’جعلی پیروں‘‘نے یہی بتایا کہ وہ خود کو ’’جمہوریت کی قبر ‘‘میں دفن کر لیں تو وہ منزل پالیں گے اور ان کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
سو اس قوم نے بھی بجلی،گیس ،بیروزگاری اور ناجانے کتنی ہی پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنے اور اپنی منزل پانے کے لئے خود کو ’’جمہوریت‘‘ کی قبر میں اتار لیا.......
جہاں اس کا دم پہلے سے بھی زیادہ گھٹنے لگا .....
صفدر علی کی طرح اس قوم نے بھی اس قبر میں ایک سوراخ کر کے عدلیہ کی چھڑی رکھ لی جو اس کے زندہ ہونے کی تصدیق کر تی رہی .....
المیہ تو یہ ہے کہ صفدر علی کی طرح اس قوم کے کوئی ماں باپ بھی نہیں ہیں جو اسے وہاں سے نکالنے کے لئے بے قرار ہوجائیں .....
بس جمہوریت کی قبر کے سوراخ سے نکلی ایک ہلتی ہوئی چھڑی ہے ........
کیا جانے یہ چھڑی کب تک ہلتی رہے .....

Saturday, January 9, 2010

نئے دن

2047
کا سورج طلوع ہوئے دس دن گزر چکے ہیں ۔۔۔کسے خبر تھی کہ یہ سورج پاکستان کے لئے ایک بالکل نئی صبح کی نوید لانے والا ہے ۔۔۔۔گر معلوم ہوتا تو ہم کسی زندہ دل قوم کی طرح اس کا بھر پور استقبال کرتے خوب چراغاں کرتے اور جشن مناتے ۔۔۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے آپ سبھی کو یاد ہوگا نئے سال کا پہلا دن کتنی حیرتیں لئے ہوئے تھا۔۔۔۔پورا دن گزر گیا مگر کہیں سے کوئی خود کش حملے کی اطلاع نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔
اور پھرسال کا پہلا اتوار کتنا عجیب لگ رہا تھا ،جب شاید پہلی بار پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے چھٹی کادن دھماکوں کی خبروں کے مزے اور سیاستدانوں کی کرپشن کہانیوں کے چسکے لینے کے لئے ٹاک شو کی تفریح کا مزہ نہیں لیا تھا ۔۔۔کتنا عجیب لگ رہا تھا نا یہ سب اور کتنا مختلف بھی۔۔۔
پھر اس کے بعد کے سارے دن سبھی کے لئے نئے تھے ۔۔۔یہ نیا پن سبھی کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔قوم جو ایک عرصے سے بری خبریں سننے کی عادی ہوچکی تھی ۔۔۔۔جب بھی کوئی دھماکہ ہوتا ،کوئی خود کش حملہ ،توجہاں کئی گھروں میں قیامتیں ٹوٹ جاتیں ۔۔۔۔گھر اجڑ جاتے ۔۔۔۔۔۔ایسے میں میں جب ایک طرف یہ سب قیامتیں ٹوٹتیں ،تو دوسری طرف وہ لوگ جو اس سے متاثر نہیں ہوتے تھے ۔۔۔فوراً ٹی وی آن کرتے ۔۔۔جگہ جگہ ہوٹلوں ،بازاروں ،دکانوں میں ٹی وی کی آواز اونچی کر کے یوں مجمع لگتا گویا ''وارث''لگ گیا ہے ۔۔۔اس لمحہ بہ لمحہ کی سنسنی خیز''بریکنگ نیوز ''میں سے کچھ وقت نکال کر چند ذی ہوش لوگ فوراً فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے تمام ''ممکنا''عزیزوں کی خیریت معلوم کر لیتے اور پھراس ''تماشے ''میں کھوجاتے ۔۔۔۔
پل پل کی خبر رکھنا بہت ضروری تھا ۔۔۔۔کتنی لاشیں ۔۔۔کتنے زخمی ۔۔۔دھماکہ خود کش تھا یا بم نصب تھا ۔۔۔۔یہ سب جاننا میرے اور آپ کے لئے اتنا اہم تھا کہ ہم چینل بدلنے کا سوچتے بھی نہیں تھے ۔۔۔اور ایسے میں ٹی وی بند کر دینا تو خیر حماقت تھی ہی ۔۔۔
سانحے کی لمحہ بہ لمحہ خبریں ہم تب تک سنتے رہتے جب تک کوئی دوسرا سانحہ نہ ہوجاتا۔۔۔۔
پوری قوم ایک ''ایڈکشن''کا شکار تھی ۔۔۔۔سانحات کی پل پل کی رپورٹ سننے کی ''ایڈکشن''۔۔۔۔
مگر 2047کا سال پہلے دن سے ہی مختلف تھا ۔۔۔بہت مختلف ۔۔۔۔پاکستان میں ایک نئے دور نے جنم لیا ۔۔۔۔۔دہشت گردی ،غربت،جہالت اور ناجانے کتنے ہی بوجھ 2046کی آخری رات نے اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے ۔۔۔۔
اب ہم ایک نئی قوم ہیں ۔۔۔۔۔۔ایک با ہمت ،پر امن ،اور باعزت قوم۔۔۔۔۔۔
یہ سب کیسے ممکن ہوا اس کی کہانی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔۔۔
فی الحال تو یہاں صرف ایک مشکل کا ذکر ضروری ہے ۔۔۔جس کا اس ''نئے پاکستان ''کے ایک خاص طبقے کو سامنا ہے اور وہ طبقہ ہے ''میڈیا''
اب کچھ مخصوص کالم نگار ہاتھوں میں قلم لئے پہروں سوچتے ہیں کہ کیا لکھیں ۔۔۔کسی کی کرپشن کو بے نقاب کریں ۔۔۔کوئی تو ہو جس کے ''کرتوت ''لکھ کر عوام کو اپنا گرویدہ بنائیں۔۔۔
اور ایک اور عجیب بات آپ نے نوٹ کی ہوگی نیوز چلتے چلتے اچانک بالکل خاموش نیلی سکرین درمیان میں آجاتی ہے ۔۔۔یہ ایسے ہی ہے جیسے مارشل لاء کے زمانے میں سنسر شپ کے باعث اخباروں نے ان خبروں کی جگہ خالی چھوڑنی شروع کر دی تھی جہاں کی خبریں سنسر ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔۔اسی طرح نیوز چینلز نے جو ٹائم خود کش دھماکوں کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا وہ ٹائم اب بالکل خالی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔بالکل خاموش نیلی سکرین ۔۔۔۔۔۔
ویسے یہ قانون بننا چاہیے کہ خالی سکرین نہ چھوڑی جائے بلکہ اس پرلازماً کوئی نیوز دی جائے ۔۔۔۔ایسا ہوا تو یقینا نیوز چینلز کو ''اچھی خبریں ''دینے کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا ۔۔کیونکہ اب پاکستان میں صر ف اچھی خبریں ہی لمحہ بہ لمحہ اور ہر پل ہوں گی ۔
ایسے میں ان نیوز چینل کا کیا ہوگا جو خود کش دھماکوں کے بد ترین دور میں کھمبیوں کی طرح اگ آئے تھے ۔۔۔آپ کو اور مجھے ہر وقت باخبر رکھنے کے لئے ۔۔شاید وہ بند ہوجائیں ۔۔۔یا پھر وہ تفریح فراہم کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچیں ۔۔۔
کرپشن اور دہشت گردی سے پاک اس ''نئے پاکستان ''میں بہت سے نیوز چینلز،رپورٹرز،اور ٹاک شوز کا مستقبل اب ایک سوالیہ نشان ہے ۔۔۔
مگر پاکستان کا مستقبل اب بالکل روشن ہے ۔۔۔۔
خدا کرے یہ دس دن دس صدیوں پر محیط ہوجائیں ۔۔آمین