محبت کے سوا
کم تو ہم پہلے بھی کچھ نہ تھے مگر روشن خیالی کے آٹھ سالہ دور نے تو ہمارے اقدار کی جڑیں تک ہلا کر رکھ دیںہیں۔۔۔۔۔معاشرے کی درس گاہ میںتعلیم پانے والے نوجوانوںکے لیے محبت ایک لازمی مضمون کی حثیت اختیار کر گیا ہے پہلے یہ آپشنل ہو ا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ مضمون آپ اپنی عمدہ کمیونیکیشن سکلز کی بناءپر ہی لے پاتے تھے ۔۔۔۔۔مگر خاص طور پر جب سے سبھی کے ہاتھوں میںالیکٹرانک کبوتر آگئے محبت کرنا بھی لازمی سا ہی ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ترغیب دینے کو ان کبوتروں کے مالک ہیں۔۔۔۔۔جو ایک سے ایک نیا آئیڈیا اپنی پروڈکس کی پبلیسٹی کے ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کو مفت دیتے ہیں۔۔۔۔
محبت کی دنیا میںبڑے بڑے نام گزرے ہیں۔۔۔۔مثلآلیلی مجنوں،سسی پنوں۔۔۔۔حیرت یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ نام یہ مقام کیسے حاصل کر لیا ۔۔۔۔۔جابجا دیواروںپر نظر آنے والے لازوال کردار ایف اینڈ جے ،یا کے اینڈ کے ۔۔۔آخر ان کے جذبے میںکہاںکمی ہے جو وہ یہ نام اور مقام نا حاصل کر پائے جو تاریخکے مختلف کرداروں کے حصے میں آئی ۔۔۔۔۔۔تو سمجھ کچھ یہ آتی ہے کہ تاریخکے کردار مثلآ لیلی مجنوں۔۔سسی پنوں وغیرہ نے جو محبت کی وہ ان کی اپنی اختراع یا ان کی اپنی انویشن تھی ۔انہیںآءیڈیازدینے کے لیے مختلف موبائل کمپنیاں نہیںتھیں سو چیز جتنی اوریجنل ہو گی اتنی ہی مقبولیت حاصل کر ے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کرداروںکے جذبے کی واقعی داد دینا پڑے گی کہ اس دور میں جب نام بنانے کے لیےدور جدید کی مختلف ٹیکنالوجیزکی فیلڈز نہیںتھیں تو انہوںنے محبت کر کے ہی نام بنا لیا ۔۔۔۔بڑٰ ی بات ہے جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کرنے والے کرداروںکے حوالے سے بات کی جائے تو پہلا نام لیلی کا ذہن میں آتا ہے ۔۔۔سنا ہے کہ لیلی کالی تھی ۔۔۔۔۔۔یہ بھی سنا ہے کہ اسکا ایک کتا بھی تھا ۔۔۔۔شاید لیلی کا کتا بھی کالا ہی تھا ۔۔۔۔تاریخاس بارے میں شاید چپ ہے اور ایک چپ سو سکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرہاد صا حب کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں نہر کھودتے کھودتے تیشہ اپنے ہی سر پر دے مارا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرہاد صاحب پاکستانی مرد نہیںتھے ورنہ ضرور یہ تیشہ شیریںکے سر پہ دے مارتے ۔۔۔۔۔
اب جناب اس نئے کردار سے ملیے ان کی اماںکسی کے گھر رشتہ لیکر گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بہن آپ کا بیٹا کرتا کیا ہے ؟
خیر سے لڑکیوںمیں موبائل کے سمز تحفتا تقسیم کرتا ہے بدلے میںوہ اسے اپنے باپ بھائی کے پیسوںسے ایزی لوڈ کروادیتی ہیں خٰیر سے بڑا ہی۔۔۔
نہیںمیرا مطلب تھا کہ کام کیا کرتا ہے ؟
اے لو کام کریںاس کے دشمن
تو پھر میری بیٹی کو کھلائے گا کہاںسے
تو تمہاری بیٹی کھائے گی بھی۔۔۔۔چل اٹھ سکینہ
اور پہلے سے بیزار بیٹھی سکینہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔
ویسے تو شدید گرمی میںپکتے ہوئے تارکول کے پاس کھڑا مزدور بھی محبت کا ہی روپ ہے اور یہ محبت ہے اس کی اپنے کام سے اپنے اہل خانہ سے اور حلال رزق سے ۔۔۔۔۔چلچلاتی دھوپ میں عین سڑک کے بیچ پتھر کوٹتی عورت بھی محبت کا روپ ہے یہ محبت ہے اسکی اپنی اولاد سے اور حلال رزق سے ۔۔۔مگر جناب یہ محبتیںتو آپ کو جا بجا مل جائیںگی بات کرتے ہیںاس محبت کی جو انمول ہے ۔۔۔۔۔ذرا تصور کیجیے ۔۔۔۔۔
پلیٹ فارم پر گاڑی تیار ہے ۔۔۔پریا اپنے خاندان سمیت پلیٹ فارم پر کھڑی ہے ۔۔۔راہول گاڑی میںسوار ہو چکا ہے ۔۔۔پریاآآآآآآ۔۔۔۔راہووووول ۔۔۔پریا کو اسکا باپ پکڑے ہوئے ہے گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔جا بیٹٰی اب سوار ہو جا ۔۔۔۔۔اچا نک ہی پریا کے باپ کو رحم آجاتا ہے ۔۔۔اور پریا بھاگتی ہوئی راہول کے ڈبے تک جاتی ہے اور پھر آپ آنکھ جھپکتے ہیںتو وہ گاڑٰی میں سوار ہو چکی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
اب ذرا ایک اور سین ملاحظہ ہو ۔۔۔اب کی بار راہول پلیٹفارم پر کھڑا ہے ۔۔۔۔۔پریا اپنے خاندان کے ساتھ گاڑی میںسوار ہو چکی ہے( نہ جانے یہ پریا کا خآندان اسکے ساتھ ہی کیوںہوتا ہے ہر جگہ ۔۔۔۔گاڑی رفتار پکڑچکی ہے ۔۔۔بے فکر رہیے اس بار ہمارا ہیرو پلیٹ فارم پر ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔راہوووووول ۔۔۔۔۔۔پریاآآآآآآآآآآآآآآآ۔۔۔۔۔۔۔راہووول بہت تیز دوڑتا ہے جو کہ سلو موشن میںدکھائی جا تی ہے اگر رہول کی اصل رفتا ر دکھائی جائے تو آپ کو روشنی کی رفتار سے بھاگتا ہوا راہووول نظر ہی نہیں آ ئے گا ۔۔۔۔۔صرف آپ کی سہولت کی خاطر ایسا اہتمام کیا جاتا ہے ۔۔۔۔پھر راہول بھاگتے بھاگتے پریا کے ڈبے تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔دونوںہاتھوںسے دروازے کے دونوں اطراف کےہینڈل پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک ہینڈل ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے ۔۔۔پریا ہاتھ آگے بڑھا دیتی ہے ۔۔۔۔۔اصولا تو پریا کو بھی دھڑام سے نیچے آجاناچاہیے ۔۔۔مگر آپ آنکھ چھپکتے ہیںتو راہول ڈبے میںسوار ہو چکا ہے اور ڈبے میںسوار ہونا ہی راہوووووول کا اصل مقصد حیات تھا ۔۔۔۔۔۔لہذا فلم ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔۔آپ نے ایویں تین گھنٹے راہوووول کے پیچھے برباد کر دیے ذرا سی محنت خود کر تے تو آپ بھی کسی نہ کسی گاڑی میںسوار ہو ہی جاتے ۔۔۔۔۔خیر آپ سوچیںگے کے اس میںانمول کیا تھا۔۔۔تو جناب تیسری دنیا کے جن ممالک میںریلوے پلیٹ فارم کا یہ حال ہو کہ دروازے پر جگہ نہ ہونے کے باعث لوگ اپنے بچے کھڑکیوںکے ذریعے سوار کراتے ہوںوہاںاگر ایسی رش سے پاک محبت مل جائے تو وہ یقینا انمول ہی ہو گی نا ۔۔۔۔۔
محبت کے لازوال کردار ہیر رانجھا کے بارے میں ہم ایک لمبا عرصہ بےخبری کے ہی عالم میںرہے وہ تو ایک بار ٹی وی پر کچھ آرہا تھا جواس وقت ہماری عقل سلیم سے کافی بالا تھا ہماری چھوٹی خالہ جانی نے بتایا کہ وارث شاہ کی ہیر آرہی ہے ۔۔۔۔ہمارے لیے یہ تینوںلفظ ہی نئے تھے کیا آرہی ہے؟ہم نے معصومیت سے پوچھا تو خالہ جانی نے حیرت سے ہمیںدیکھا اور پوچھنے لگیںتمہیںہیر رانجھا کا نہیں پتہ ؟ نہیں۔۔۔وہ ہمارے چہرے کوغؤر سے دیکھنے لگیں پھر جانے کیوںانہیں یقین آگیا کہ واقعی ہمیں نہیں پتا تو انہوں نے ہمیں اس لازوال داستان کےمتعلق کچھ بتایا بس پھر اس کچھ سے آگے جاننے کی ہم نے خود ہی کچھ کوشش نہیں کی کیونکہ ہمارے خیا ل میں
اور بھی غم ہیںزمانے میں محبت کے سوا
میں تو اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ
ReplyDeleteاور بھی غم ہیںزمانے میں محبت کے سوا
میں تو کہتا ہوں
اور تو غم ہی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
اچھی تحریر لکھی ہے آپ نے
لیکن کچھ سوالات جواب طلب ہی رہ گیے
الیکٹرانک کبوتر تو میرے پاس ہے اور سمیں بھی اتنی ہیں جتنی محبتیں میں افورڈ کر سکتا ہوں
لیکن کسی کریش کورس کا ذکر نہیں کیا آپ نے
ٹاک شاک کے اشتہار دیکھ دیکھ کر سب کہنے کو دل ت کرتا ہے پر اور سناوں تو کس کو؟؟
مجھے بس اس انسٹیٹیوٹ کا پتا چاہیے جہاں یہ کورس پڑھایا جاتا ہو اور اعتماد سازی کا بھی پورا پورا انتظام ہو تو میں ڈبل فیس دینے کو بھی تیار ہوں
لیکن مجھے اس کورس میں کامیابی چاہیے
ہر قیمت پر
اپنی کہانی اور ناموں کی مشہوری میں کسی نا کسی طرح کر ہی لوں گا
آپکی تنقید کافی سے زیادہ دلچسپ ہے۔ ایسے ہی لکھتی رہیے۔
ReplyDeleteہم ٹی وی پر روزانہ دیکھتے ہیں کہ راہول پریا کا ہاتھ پکڑے ٹرین پر چڑھنے کیلئے بھاگا جا رہا تھا کیونکہ ٹرین چل پڑی تھی کہ پریا کو ایک سٹال پر بسکٹ نظر آ گئے اور پریا راہول کا ہاتھ چھوڑ کر سٹال کی طرف چلی گئی اور بسکٹ کھا کر دنیا کی تمام مسرتیں حاصل کر لیں
ReplyDeletehi nice blog i like it now view my blog
ReplyDeletehttp://luckygemstones.blogspot.com
ڈفر آپ مجھ سے رابطہ کیجئے لیکن فیس ڈالر میں لونگا، کیا کروں یار مہنگائی ہے۔
ReplyDeleteنا سکھانے والی بات ہو گیی نا یہ تو
ReplyDeleteاچھی تحریر لکھی ہے
ReplyDeleteڈفر
ReplyDeleteبہت شکریہ اآُپ کا آدھا تبصرہ سمجھ نہیں آیا تھا مگر پھر آپ کے بلاگ پر تازہ پوسٹ سے کچھ اندازہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجد اقبال
ساجد بھائی بہت بہت شکریہ
آفتخار اجمل بھوپال
ایڈوالی پریا بہت سیانی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
pakistani jeweller and little astonomer
بہت بہت شکریہ آپ کا بلاگ وزٹ کیا بہت اچھا ہے۔۔۔۔پتھروں کی خؤبصورتی دیکھ کر ان کے خآلق کی مصورانہ صفت کی یاد دہانی ہو جاتی ہے۔۔سبحان اللّہ
بلو
ReplyDeleteبہت بہت شکریہ
بہت خوب تحریر لکھی ہے آپ نے ۔۔ آپ حقیقتن ایک رائیٹر ہو ۔۔
ReplyDelete