چلہ کاٹنے والا شخص41گھنٹے بعد قبر سے زندہ نکل آیا،یہ شخص ایک لمبے عرصے سے بیماری اور پریشانی میں مبتتلا تھااس کے ’’جعلی پیر ‘‘نے اس کے تمام پریشانیوں کا حل یہی حل بتایا تھا کہ وہ خود کو ایک قبر میں دفن کر لےتو اپنی منزل پالے گا اور اس کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
صفدر علی نامی نوجوان نے دفن ہوتے ہوئے قبر میں ایک سوراخ رکھ لئا جس میں سے ایک ڈنڈی باہر نکال دی اور اپنے ماں باپ سے کہا کہ جب تک ڈنڈی ہلتی رہے سمجھنا میں زندہ ہوں اور جب یہ ہلنا بند ہوجائے تو مجھے یہاں ہی دفن رہنے دینا ......
اس کے ماں باپ نے بے چین ہوکر اسے قبر سے نکال لیا.....
صفدر علی کی کہانی سے ایک قوم کی داستان یاد آتی ہے ....
یہ قوم غربت ،جہالت کے مرض میں مبتلا تھی ....آمریت کا ایک عرصے سے راج تھا ......
اس قوم کو بھی چند’’جعلی پیروں‘‘نے یہی بتایا کہ وہ خود کو ’’جمہوریت کی قبر ‘‘میں دفن کر لیں تو وہ منزل پالیں گے اور ان کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
سو اس قوم نے بھی بجلی،گیس ،بیروزگاری اور ناجانے کتنی ہی پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنے اور اپنی منزل پانے کے لئے خود کو ’’جمہوریت‘‘ کی قبر میں اتار لیا.......
جہاں اس کا دم پہلے سے بھی زیادہ گھٹنے لگا .....
صفدر علی کی طرح اس قوم نے بھی اس قبر میں ایک سوراخ کر کے عدلیہ کی چھڑی رکھ لی جو اس کے زندہ ہونے کی تصدیق کر تی رہی .....
المیہ تو یہ ہے کہ صفدر علی کی طرح اس قوم کے کوئی ماں باپ بھی نہیں ہیں جو اسے وہاں سے نکالنے کے لئے بے قرار ہوجائیں .....
بس جمہوریت کی قبر کے سوراخ سے نکلی ایک ہلتی ہوئی چھڑی ہے ........
کیا جانے یہ چھڑی کب تک ہلتی رہے .....
اچھی بات ہے ۔۔ جس کو دیکھو حکومت کی ٹانگ کھینچتا ہے ۔۔ جس کو دیکھو اپنے ہی ملک کو اپنے ملک والو کو کوستا ہے ۔۔ خود کہا سے ہے اس کے بر خلاف
ReplyDeleteصفدر نے جو کیا اس کے زندگی کا ایک سیاہ یا سنہرا کچھ باب ہوگا ضرور ۔۔ حکومت میں بھی دو آنکھ دو ہاتھ والے انسان ہی ہیں اور عدالت میں بھی
حکومت کی ہوگئی ۔۔ عدلیہ کی بھی ہوگئی اور صفدر کی بھی ان جیسوں کی بھی ہوگئی ۔۔ کبھی اپنے بارے میں بھی تو لکھیں کچھ مزید ، حیرانگی ہے اتنی مصروفیات میں بھی لوگوں کو ٹی وی دیکھنے کا ٹائیم مل جاتا ہے !
نہایت عمدہ
ReplyDeleteاچھی کوشش ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قوم نے زیادہ عرصہ تو آمریت کی قبر میں گزارا ہے جب کبھی کوئی قبر سے نکال دے تو دوبارہ چلہ کاٹنے کے لیے بیتاب ہوجاتے ہیں ہم لوگ.
ReplyDeleteکیا آپ واقعی سنجیدگی سے سمجتھی ہیں کہ ہماری قوم کو جمہوریت اور آمریت کے فرق کا پتہ ہے۔۔۔۔
ReplyDeleteایک اونٹ سے کسی نے پوچھا تھا کہ تمہارے لئے چڑہائی مشکل ہے یا اترائی۔ اونٹ نے جواب دیا، ہر دو لعنت۔۔۔۔
اویس:
ReplyDeleteشکریہ ...میرے بارے میں کوئی جان کر کیا کرے گا ...جتنا پروفائل میں لکھا ہے یہ بھی کافی سے زیادہ ہے .....
عمر احمد بنگش
بہت بہت شکریہ ....
بہت اچھا لکھا ہے۔
ReplyDeleteراشد کامران
ReplyDeleteبہت شکریہ ....
آمریت کے مرض کو دور کرنے کے لئے ہم جمہوریت کی قبر میں اتر جاتے ہیں جب کہ وہاں دم اور گھٹنے لگتا ہے ....سو ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا واقعی ہمارا مرض آمریت ہی ہے ......
جعفر
ReplyDeleteجمہوریت اور آمریت کا فرق سمجھانے کے لئے تو ہمارے ’’جعلی پیر ‘‘موجود ہیں مگر ’’جمہوریت ‘‘کا اصل مفہوم سمجھانے والے کوئی نہیں ہم ناداں بادشاہت کو بھی جمہوریت ہی سمجھ بیٹھے ہیں....
عنیفہ جی
بہت بہت شکریہ
محترمہ! آپ کہاں غائب ہیں؟ کیا اردو بلاگستان سے کوئی ناراضگی ہے؟ ہم تو آپ کو سال کے بہترین نئے بلاگز میں شامل دیکھنا چاہ رہے تھے لیکن آپ تو تلاش کرنے کے باوجود نہ ملیں۔
ReplyDeleteبہرحال آپ کی تحریر دیکھ کر دلی اطمینان بھی ہوا کہ میدان چھوڑ کر نہیں گئی ہیں اور ساتھ میں اچھی تحریر پڑھنے کوبھی مل گئی۔ آتی جاتی رہا کیجیے، اچھے خیالات کے حامل افراد کی اشد ضرورت ہے ہماری قوم کو۔ جیتی رہیے۔
جمہوریت کو برباد کرنے والے بھی جمہوری لوگ ہیں.
ReplyDeleteابو شامل
ReplyDeleteفہد بھائی بہت شکریہ ...غائب کہاں بس یہا ں ہی تھی...اور سال کے بہترین بلاگر ز میں تو انہیں ہی ہونا چاہیے جو اس کے حقدار ہیں میں تو ابھی سیکھنے کے مراحل میں ہوں اس قابل کہاں....
اآپ کی شفقت و عنایت کا بہت بہت شکریہ...
اب انشائ اللہ لکھتی رہوں گی ...سوچا تو یہی ہے ....آگے جوخدا کو منظور
فرحان دانش
ReplyDeleteاصل میں یہ لوگ جمہوریت کا نام اشتعمال کر تے ہیں ،ورنہ تو ان کی پارٹیز میں بھی نری بادشاہت ہے ...بادشا ہ پھر اس کے بعد ولی عہد....ملک کے تخت و تاج کی وراثت....نسل در نسل.....
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete