ہماری میسنی صورت دیکھ کر تو لوگ ہمیںہماری چھ سال چھوٹی بہن سے بھی چھوٹا سمجھتے ہیںمگر یہ انکشاف ہم پر حال ہی میںہوا ہے کہ ہماری تحاریر سے کچھ لوگ ہمیںکوئی سمجھدار آنٹی سمجھ لیتے ہیںیہ انکشاف یقینا دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے بھیانک بھی تھا ہمارے لئے سو ویسے تو ہم لکھنے لکھانے سے فرار حاصل کئے ہوئے ہیںکچھ عرصہ سے مگر چونکہ یہ ہمارا خود سے عہد ہے کہ جب بھی لکھیںگے معاشرے کے اصلاحکے لئے ہی لکھیںگے ۔۔۔۔سو یہ تحریر بھی معاشرے میںموجود اس بھیانک تاثر کی اصلاحکے لئے ہے کہ ہم کوئی آنٹی ہیں۔۔۔۔۔ہاںسمجھدار سمجھنے میںکوئی قباحت نہیںہے کیونکہ وہ توآپ ہمیںنہ بھی سمجھیںتو بھی ہم ہیںاور اگر سمجھ لیںگے تو بس ذرا ہمیںیقین سا آجائے گا اور کیا ۔۔۔۔۔
ہمیںاگر اندازہ ہوتا کہ ہماری تحاریر سے یہ تاثر ابھرے گا تو یقینا ہم کبھی اتنا بڑا رسک نہ لیتے ۔۔۔۔
اپنی عمر کے تاثر کو درست رکھنے کے لئے یقینا فلموں،گانوں،ڈراموںکے ریویوز ،فیشن ،ایس ایم ایس ،فن کاروںکی شادیاںاور طلاقیں۔۔۔اینڈواٹناٹ۔۔۔۔۔بہت سارے ایشوز تھے بہت سے مسائل تھے جنہیںہم بیان کرسکتے تھے ۔۔۔اور نوجوان نسل کے لئے اپنی تحاریر کے ذریعے بہتر آگاہی پھیلا سکتے تھے جس سے نوجوانوںکو بھی فائدہ ہوتا اور ہمیںبھی کوئی آنٹی نہ سمجھتا ۔۔۔۔۔۔
لفظآنٹی سے ہمیںایک دلچسپ واقعہ یاد آجاتا ہے تو خوب ہنسی آتی ہے آپ بھی سنیے اگر آپ کو ہنسی نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ آپ بھی آنٹی ہیں۔۔۔۔۔
ہوا یہ کہ ہم چھٹی جماعت میںنئے سکول میں پہلے دن گئے ۔ہم بستہ لٹکائے سکول کے اندر کھڑے ہوکر اپنے کلاس روم کا تعین کرنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ سامنے والے کمرے سے ایک آنٹی یونیفارم میںبرآمد ہوئیںبخدا اپنے قد کاٹھ بناو سنگھار اور چال ڈھال سے ہمیںوہ آنٹی ہی معلوم ہوئیں۔۔۔ہم نے سوچا ان سے پوچھا جائے کہ آنٹی سکستھ کلاس کہاںہے مگر پھر فورا ہی ہمیںخیال آیا کہ انہیںآنٹی نہیںکہنا چاہیے کیونکہ انہوں نے بھی ہمارے جیسا ہی یونیفارم پہن رکھا ہے ہم آج بھی حیران ہیںکہ ہم تب بھی اتنے ہی علقمند ہوا کرتے تھے جتنے کہ اب ہیں۔۔۔۔۔۔
ہمیںباجی کہنے کی عادت نہ تھی کیونکہ ہماری کوئی باجی تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔صرف ایک بھائی جان ہیںجن کے زیرتسلط معاف کیجئے گا جن کے زیر سایہ ہم کھیلتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب ہم نے بہت ہمت کر کے وہ نامانوس لفظ یعنی باجی اپنے منہ سے نکالا۔۔۔۔باجی کلاس سکستھ کہاںہے ؟۔۔۔یہ سننا تھاکہ باجی کا منہ لال ہوگیا اور پھر ہمیںکوئی قریبا آدھا گھنٹے کی باجی کی تقریر سننی پڑی جس میںجوش تھا غصہ تھا اور نہ جانے کیا کیا تھا مگر اس تقریر کا حاصل کلام ان کا ایک جملہ تھا جسے وہ بار بار دہراتی تھیں،دیکھو سکول میںکوئی کسی کی باجی نہیںہوتی سب دوست ہوتے ہیں۔۔۔اس کے آگے پیچھے وہ کیا فرماتی تھیںہمیںیاد نہیںرہا کیونکہ ہمارا دماغ تو ان کے کڑے تیور دیکھ کر ماوف ہوچکا تھا پھرجب باجی نے دیکھا کہ ہم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سہم گئے ہیںاور ہماری آنکھوںکا پانی بس کسی بھی لمحے چھلکنے ہی والا ہے تو وہ کچھ ٹھنڈی ہوئیںاورھر بڑے پیار سے ہمیںچمکارتے ہوئےآخری بار انہوںنے فرمایا دیکھو سکول میںکوئی کسی کی باجی نہیںہوتی سب دوست ہوتے ہیں۔۔۔۔اور پھر ہمارا بیگ رکھوا کر ہمیںاپنے زیر شفقت اسمبلی میںلے گئیںاور واپس بھی لائیںاور کلاس میںبڑے پیار سے ہمیںاپنے پاس بٹھایا اور ہم اتنے معصوم تھے کہ ہمیںپھر بھی اپنی حماقت کا احساس نہ ہوا ۔۔۔وہ تو اب سوچتے ہیںتو سمجھ آتا ہے کہ ہم نے لاعلمی میںاپنی کلاس فیلو کو باجی کہہ دیا تھا ۔۔۔۔۔
تو جناب اگر ہماری کسی تحریر سے اس قدر سنجیدگی کا تاثر ابھرا ہے کہ ہمیںآنٹی ہی جان لیا جائے تو ہم آئندہ اپنی تحریر میںاس بات کا خاصخیال رکھیںگے کیونکہ بہرحال ایج کانسیش ہونے کا ہمیںحق ہے اور عمر چھپانے کا بھی ۔۔۔
ہم محتاط رہیںگے مگر آپ سب بھی محتاط رہیں۔۔دیکھیںبلاگنگ کی دنیا میںکوئی کسی کی باجی نہیںہوتی اور آنٹی تو بالکل بھی نہیں۔۔۔سب دوست ہوتے ہیں۔۔۔یاد رہے کہ یہ اصول مستقبل میںبھی لاگو رہے گا ۔
آپ بہت عرصے بعد بلاگ لکھ رہے ہو ۔۔ آپ کا اپنا رجحان ہے کے آپ معاشرے کی اصلاح کے لیے بلاگ لکھتے ہو ۔۔ پر بھیانک خیال !! بچے تو پھر بڑوں کو انکل آنٹی کے کر ہی مخاطب کرتے ہیں ۔ آپ کا دلچسپ واقعہ بھی بہت کچھ بیاں کرتا ہے ۔
ReplyDeleteہمارے کمزور حافظے میں دو طرح کی افراد کا تصور ہے ۔۔ ایک وہ جو عمر میں انکل آنٹی ایک وہ جو کے سوچ ، خیالات میں انکل آنٹی معلوم ہوتے ہوں ۔۔ بنا کوئی شک کچھ افراد اپنی عمر سے زیادہ معلوم ہوتے ہیں ۔۔ آپ کی تحاریر میں ایک با اثر سمجھدار آنٹی ہونے کا تاثر تو بظاہر ضرور ملتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو ہمارے سے چھوٹے ہم سے اکثر جب بڑوں کی طرح بات کرنے لگتے ہیں تو شرارت سے پھر ان کو ۔۔ اچھا انکل جی آنٹی جی ایسے مخاطب کر لیتے ہیں ۔
امید ہے آپ معاشرے کی اصلاح کرتے رہوگے ۔ جزاک اللہ خیر
ٹھیک ہے ۔۔۔آنٹ۔۔۔۔۔اوووہ ہ نہیں نہیں۔۔۔
ReplyDeleteباااااااج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمممم میرا مطلب ہے دوست۔۔۔
Hello /salam sara ji,
ReplyDeletekasi hain app?
sab theek thak ?
aj app ki likhi hoi read ker rehi hon aur hanss rehi hon mazay ki hai,
aur sunayan koi nayi taza?
Ameee ko mera salam dejay ga , and bhanjay mohsin ko bhi ,
(khalaa buchee)
مجھے تو اس میں روشن خیالی نظر آرہی ہے حالاں کہ اس کا دور ختم ہو نے کی بجائے منتقل ہو چکا ہے۔
ReplyDeleteمیں نے کل ایک مرد نما عورت کو سلام کیا تو وہ مجھے دعائیں دینے لگی کہ لگا اس نے تو برا نہیں منایا۔
پوسٹ میں صرف عورتوں کی یک طرفہ حمایت ہے بزرگ بلاگرز ( جن میں میں قطعی شامل نہیں ) کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا ۔
ہاہاہا ۔۔۔۔۔۔ بہت خوب ۔ ہم آپ کا حق بالکل تسلیم کرتے ہیں، خواتین یا لڑکیوں کو ایج کانشیس ہونا چاہیے۔
ReplyDeleteبہرحال بہت عرصے بعد آپ کو دوبارہ بلاگ پر دیکھ کر مسرت ہو رہی ہے کہ ایک اچھی بلاگر میدان میں واپس آئی ہیں۔ ورنہ کئی ماہ کی غیر حاضری تو پریشان کیے دے رہے تھی۔ امید ہے کہ اس مرتبہ سلسلہ مستقل جڑا رہے گا۔
ہم نے یہ بات پلے سے باندھ لی ہے کہ بلاگنگ کی دنیا میں کوئی باجی نہیں ہوتیں، اب آپ بھی اپنے پلو سے باندھ لیں کہ یہاں کوئی بابا بھی نہیں ہوتا :) ۔
آخر میں تبصرہ خانے کے حوالے سے ایک بات عرض کروں۔ آپ بلاگ پر تبصرہ کرنے کے عمل کو جتنا آسان بنائیں گی، اتنے زیادہ تبصرے ممکن ہوں گے۔ فی الحال تو مجھے کچھ پیچیدگیاں نظر آ رہی ہیں۔ جو شاید بلاگ اسپاٹ ہی کا مسئلہ ہیں۔ بہرحال آپ اسے ضرور دیکھیے
سارہ اس دلچسپ صورتحال کا اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے تحقیقی اداروں میں آنیوالے ہر نئے ساتھی کو یہ بات کہنی پڑتی تھی کہ یہ ایک پیشہ ورانہ جگہ ہے۔ آنٹی، باجی، بھائ، انکل یہ سب تو رشتے داریاں ہوتی ہیں اور انکے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ میں کسی کو انکل کہوں تو اب اسکی کسی بات میں خامی نکالنا یا بتانا مشکل ہوگا۔ اسکا کسی روشن خیالی سے تعلق نہیں ہےء بلکہ چونکہ اب ہمارا نظام اس مروجہ ڈھنگ پر نہپیں رہا ہے تو ہمیں اس سے باہر نکل کر سوچنا پڑیگا۔ یونیورسٹی میں اچھے بھلے نوجوان پوائنٹ ڈرائیور کو لڑکیاں انکل کہہ رہی ہوتی ہیں۔ اس سے اسے خاصہ صدمہ ہوتا ہوگا۔ اسکے بجائے میں تو اسے ڈرائیور کہنے پر ترجیح دیتی یا پھر اگر مجھے اسکا نام معلوم ہو تو نام میری پہلی ترجیح ہوتا ہے۔آخر ہماری پیدائش کے بعد اتنی تگ و دو سے رکھا جانےوالا نام کس لئے ہوتا ہے۔
ReplyDeleteہاہاہا۔۔بہت خوب سارہ۔
ReplyDeleteجو جو آنٹی یا باجی کہتے ہیں۔۔امید ہے ان کو آپ کی تحریر پڑھ کر کچھ نہ کچھ تو اثر ہو گیا ہو گا
:D
ویسے کیا فرق پڑ جاتا ہے؟ پھول کو کسی بھی نام سے پُکارو رہے گا تو پھول ہی نا؟ ہم تو اب قلیل البالی کے سبب ان مراحل سے بے نیاز ہی ہو چُکے ہیں سو ساہنوں کیہہ۔
ReplyDeleteریحان
ReplyDeleteبہت بہت شکریہ۔۔آپ تو ایسے وضاحت دے رہے ہیںجیسے آپ بھی ہمیںآنٹی سمجھتے ہوں۔۔۔۔ہی ہی ہی
جعفر
ب ب بہ بہت شکریہ انک انکل
ہمارے زمانہ میں سکول اور کالج میں یا اُستاذ ہوتے تھے یا دوست ۔ چھٹی جماعت کا طالب علم دسویں جماعت کے طالب علم کو دوست کہہ کر مخاطب کرتا تھا ۔
ReplyDeleteاب آتے ہیں دوسری بلکہ پہلی بات کی طرف ۔ میں جب سکول کالج میں پڑھتا تھا اگر کوئی پوچھے کونسی جماعت میں پڑھتے ہو ؟ تو میرے جواب پر قہقہہ پڑتا تھا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بچہ ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے گو وہ خود ہی بیوقوف بن چکے ہوتے تھے
خالہ بوچھی
ReplyDeleteبلاگ پر خوش آمدید ۔۔۔بہت بہت شکریہ ۔۔میںخیریت سے ہوںآپ سنائیے کیا حال ہے ۔۔۔امی جان کو آپ کا سلام پہنچا دیا وہ بھی آپ کو سلام کہہ رہی تھیں۔۔۔بہت شکریہ ۔
کنفیوز کامی
آپ نے روشن خیال ہوکر پڑھ لیا ہوگا ورنہ توروشن خیالی کی تو کوئی بات نہیںاس میںیہ تو ہمارا احتجاج تھا ۔۔۔۔
اور انکل اپنے حقوق کےلئے خود آواز اٹھائیںہم آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔
ابو شامل
ReplyDeleteبہت بہت شکریہ اس حق کو تسلیم کرنے کا
ہاںبابا بھی نہیںہونا چاہیے ۔۔پر انکل ٹھیک ہے ؟۔۔۔
تبصرے میںواقعی مسلہ کچھ لوگ مجھے بتاتے ہیںکہ انہیںتبصرہ کرنے کا پتہ ہی نہیںچلتا کیسے کرنا ہے ۔۔۔۔۔پر یہ بلاگ بھی غنیمت ہے ورنہ مجھے تو ان ٹیکنیکل چیزوںکا بالکل بھی پتہ نہیںچلتا وہ تو نبیل بھائی اور عمار بھائی نے ہیلپ کی تو یہ بن گیا ورنہ مجھے تو کچھ بھی نہیںپتہ تھا ۔۔۔۔
عنیقہ جی
ReplyDeleteبلاگ پرخوش آمدید ۔۔۔بالکل ٹھیک کہا آپ نے ہم نے تو اس دن کے بعد کبھی اپنی سینئرز کو بھی باجی نہیںکہا ہمیشہ نام لیا ۔۔پر باجی تک تو ٹھیک ہے یہ آنٹی تو ظاہر ہے کسی صورت نہیںبرداشت کیا جا سکتا ۔۔۔ہی ہی
ماورا جی
بہت بہت شکریہ
اثر کی تو بس امید ہی کی جاسکتی ہے ۔۔۔
خرم
آپ کسی پھول کو گوبھی کا پھول کہہ کر دیکھیںپھر پتہ چلے گا کہ فرق کیسے نہیںپڑتا ۔۔۔۔ہی ہی ہی
افتخار اجمل بھوپال
ReplyDeleteسر پھر آپ اب انکل کہنے پر احتجاج کیوںنہیںکرتے۔۔
۔"علقمند" تو میں بھی بہت زیادہ اور شروع سے ہوں
ReplyDeleteاور مجھے اس بات پر اعتراض ہے کہ آج بھی لوگ انکل کہنے کی بجائے بھائٰ جان کہتے ہیں
اور جب کوئی "چھوٹ" ہمیں اپنے سے "چھوٹا " سمجھ کر مخاطب کرتا ہے تو ہماری حالت کا اندازہ کرنا مشکل ہے
اس کو اگر بتائیں کہ چھوٹے ہم نہیں آپ ہیں تو اس میں مزید شرمندگی کا سامان ہے
بہر صورت "ایک چپ سو سکھ" کے مترادف ہمیشہ اپنی عافیت کو ہی گلے لگاتے ہیں
السلام علیکم ورحمۃ برکاتہ،
ReplyDeleteواقعی ایک اچھی تحریرہے ہماواقعی ہمارےمعاشرےمیں انٹی کہیں توعورت کوایک بڑھاپےکاساتصورہوتاہےکہ وہ بوڑھی ہوگئی ہےلیکن یاتاثرغلط ہےیہ احترام کالفظ ہےہم نےاس تاثرکوغلط ثابت کرناہےکہ یہ احترامابولاجاتاہےناں کہ کوئي عورت زیادہ عمرکی ہوجائےاسکےلیےبولاجاتاہے۔باقی آپ نےایک اہم موضوع پرلکھاہےاللہ تعالی آپکےلکھنےکواورترقی دے(آمین ثم آمین)
والسلام
جاویداقبال