یہ قصہ ہے فنون لطیفہ کا اور یہ قصہ ہے ان معصوم ذہنوں کا جوفنون لطیفہ سے متعلق اپنے ذہنوں میںاٹھنے والے سوالات کے جوابات کے لیے مذہبی رہنماوں کی طرف دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔
اور پھر اس مسلے پر باقاعدہ ٹاک شوز کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔جس میں کوئی علامہ صاحب یہ فرمادیتے ہیں کہ ہرگز نہیں،رقص کی ممانعت قرآن میں کہیںنہیں ۔۔اور معصوم ذہن کہتے ہیں کہ ہاں واقعی عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ ایک لطیف چیز بھلا کیسے حرام ہو سکتی ہے۔۔۔پھر مومسیقی کی محفلوں میں کوئی عورت نما مرد اعضاء کی شاعری یوں کرتا ہے کہ بجائے لطف کے گھن آنے لگتی ہے۔۔۔۔۔
یہی سوالات موسیقی کے بارے میں کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔اور "روشن خیال" ذہنوں کو دین کے قریب رکھنے کے غرض سے فرمادیا جاتا ہے کہ بس کچھ "خاص قسم کی موسییقی جائز نہیں ورنہ موسیقی کی ممانعت تو ہرگز نہیں۔۔۔پھر معصوم ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ خاص قسم کونسی ہے۔۔۔۔۔۔ایک عام سا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جس طرحہم معصوم لوگ "مولانا صاحب پچھلے سال ایک نماز میںسجدہ کرنا بھول گیا تھا ۔۔اسے اب ادا کروں تو نماز ہو جائے گی؟"جیسے سوالات کے لیے علامہ حضرات سے رجوع میںرہتے ہیں ۔۔۔اسی طرح رقص وموسیقی کے بارے میں ان ارشادات کے بعد آئندہ انہی سے رجوع کے محتاج ٹہریں گے۔۔علامہ صاحب فرمایے گا کہ ابرار کی نئ البم جائز ہے اور علامہ صاحب فرمائیں گے ہاں ایک گانے "پریتو " کے علاوہ باقی البم جائز ہے۔۔۔
پھر مختلف گلوکاروں کے صحیح غٌلط ہونے کے بارے میں بھی ہم حسب عادت اور حسب روایت فرقے بنا ڈالیں گے۔۔۔۔۔پھر میرا ارادہ تو اس فرقے میں شمولیت کا ہے جس میں نیرہ نور کو سنناجائز ٹہرے۔۔۔۔
کچھ ایسی ہی صورتحال مصوری کے ساتھ رہی۔۔۔پہلے بتا دیا گیا کہ مصوری جائز ہے مگر صرف بےجان اشیا کی۔۔۔ جاندار اشیا کی تصویر کشی حرام ٹہری۔۔۔اس طرح درخت،پھول پھل کی مصوری اسلامی دائرے میںرہی۔۔۔سائنس نے ترقی کرکے بتا دیا کہ درخت،پھول پھل بھی جاندار ہوتے ہیں۔۔۔معصوم ذہن ایک بار پھر سوال بن کر رہ گئے۔۔۔۔۔
بات کو کسی تعصب کے بغیر سمجھنا ہو تو بات بہت سادہ سی ہے۔۔۔۔
بہت واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ حدود اللہ کیا ہیں اور پھر یہ بھی فرمادیا گیا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان کے قریب بھی مت جاو۔۔۔۔۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسانی خواہشات بے لگام جانور کی سی ہیں۔۔۔جنہیں لگام نہ ڈالی جائے تو انہیں نہیں پتہ ہو تا کہ ان کی حدود کیا ہیں۔۔۔۔۔اور چراگاہ کے قریب آئے بے لگام جانور کو اس کے اندر داخل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔۔۔۔
یہ بات سمجھنا بھی اہم ہے کہ ہوسکتا ہے کہ شراب نوشی کی کسی محٍفل میں بیٹھنے کی واضح الفاظ میں ممانعت نہ کی گئی ہو مگر چونکہ شراب کو حرام ٹہرایا گیا ۔۔۔ایسی کسی محٍفل میں اٹھنا بیٹھنا انسان کو اس طرف مائل کرسکتا ہے۔۔۔سو یہ عمل حدود اللہ کے قریب جانے کے مترادف ہوگا۔۔۔۔۔
یہی بات رقص و موسیقی کہ حوالے سے بھی ہے۔۔۔ہوسکتا ہے کہ ان کی ممانعت واضح الفاظ میںنہ ہو مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ انسانی جذبات کو بے لگام کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔سو ان کو ڈھٹائی کے ساتھ اپنی زندگیوں میں شامل رکھنا حدود اللہ کے قریب جانے کے مترادف ہے۔۔۔۔
ایک عام سا ذہن یہی سوچ پایا ۔۔۔آپ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں۔؛۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح کی باتیں لکھیں هیں ناں جی اپ نے
ReplyDeleteایسی هی باتیں کرنے والوں کو اسلام کے ٹھیکدار اپنا دشمن سمجھتے هیں اور فتوی وغیرھ بھی اور قتل شتل بھی
ذرا احتیاط
خاور بھائی آپ تو ڈرا رہے ہیں۔۔۔۔۔
ReplyDeleteخاور بھائی بجا ارشاد فرمارہے ہیں لیکن آپ نے جو ارشاد فرمایا ہے وہ بھی کسی تلخ حقیقت سے کم نہیں ہمارے دین کے ٹھیکے دار امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے کہ نعرے لگاتے ہیں لیکن جب کوئی ان سے کچھ پوچھتا ہے تو یہ امریکہ کا ویزا مانگ لیتے ہیں
ReplyDeleteعبدالقدوس نے بالکل بجا فرمایا
ReplyDeleteماڑا یہ جو ہیں نا نعرے لگانے والے
دنیا مین ہیں تن ذلیل
امریکو بھارت و اسرایل
اور جو ہر جمعے کے بعد امریکہ کی بربادی کے لءے دعاییں منگواتے ہیں ان کو پوچھ کر تو سیکھو ایک دفعہ کہ "امریکہ جانا ہے" اور پھر ان کا ریسپانس دیکھو
دور کیوں جانا
مولانا ڈیزل کو ہی دیکھ لو
آ ج بھی مولویوں کو وہی حکمران چاہیے
تحریر بہت اعلٰی ہے
میں آپکے انداز فکر و انداز تحریر دونوں سے متاثر اور انکا دیوانہ ہوں
ڈفر بہت بہت شکریہ۔۔۔
ReplyDeleteاس بار سب ہی کی پوسٹ چیک کرنے کے بعد پبلش کر رہی ہوں۔۔۔موضوع ذرا حساس تھا سو۔۔۔۔۔
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بھی دین کے معاملہ میں عِلم اور عمل کی بات کی جاتی ہے تو مبصرین تنے کو بھُول کر پتوں پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور حوالے مستند عالِموں کے دینے کی بجائے سیاسی یا جاہل مُلاؤں کے دیئے جاتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سوال پوچھتے ہوئے لوگ دین کے متعلق جاننے کی نہیں بلکہ مولوی کو تنگ کرنے کا مقصد دل میں لئے ہوتے ہیں ۔ جو سوال میرے سامنے پوچھے گئے میں ان کو اپنی زبان پر لانا بھی حماقت اور گھٹیا پن سمجھتا ہوں
ReplyDeleteاسلام اللہ کا دین ہے اور اللہ نے کسی کو اس کی اجاراداری عطا نہیں کی ۔ اللہ کا فرمان قرآن شریف میں موجود ہے جس پر عمل ہر اللہ کے بندے کا فرض ہے [جو اپنے آپ کو اللہ کا بندہ نہیں سمجھتا میں اُس کی بات نہیں کر رہا] ۔ اللہ نے قرآن شریف میں ہمیں بتایا ہے کہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا اور حُکم دیا ہے اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کا ۔
پس اللہ کے بندے کیلئے لازم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر عمل کرے ۔ اور چونکہ رسول کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کرتا اسلئے لازم ہے کہ جو رسول نے خود کیا وہ اللہ کا بندہ بھی کرے اور جو رسول نے خود نہیں کیا وہ نہ کرے ۔
مندرجہ بالا کسوٹی پر اِن سب کو پرکھ لیجئے ۔ شراب ۔ جُوا ۔ یا جن کا نام فنونِ لطیفہ رکھا گیا ہے ناچ ۔ گانا ۔ بُت تراشی ۔ مصوری ۔ ننگ دھڑنگ لباس کا ڈیزائن وغیرہ ۔
السلامُ عليکم
ReplyDeleteسارا جی سب سے پہلے تو خُوش آمديد اور ايک بات کہ بچے ذرا ہتھ ہولا رکّھو کہ ہمارے لوگوں کا ايسے مسئلوں ميں سارا زور فتووں پر اور عورتوں پر چلتا ہے سو دھيان سے کہ
ہيں کوکب کُچھ نظر آتے ہيں کُُچھ
کے مِصداق دھر کوئ اور نا لِيا جاۓ ،ويسے مزہ بہت آيا يہ سب پڑھ کر
خُوش رہو اور جيتی رہو
اور جاتے جاتے مُجھے ايڈ کرنا نا بُھولنا
مع السلام
شاہدہ اکرم
افتخار اجمل بھوپال
ReplyDeleteبہت شکریہ سر میری ناقص تحریر کو پڑھنے کا۔۔۔آپ نے بلکل بجا فرمایا کہ"پس اللہ کے بندے کیلئے لازم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر عمل کرے۔"
شاہدہ اکرم
ReplyDeleteشاہدہ جی بہت بہت شکریہ۔۔۔۔
بس لکھنے کے میدان میں ابھی نو آموز ہوں اس لیے۔۔آہستہ آہستہ شاید ہاتھ ہولا رکھنا بھی آجائے۔۔۔۔ابھی تو اپنی سوچ اور پھر تحریر کو ایڈٹ ہی نہیں کر پاتی۔۔۔۔
Abdul Qudoos
ReplyDeleteبہت بہت شکریہ۔۔۔۔
تحریر تو اچھی ہے لیکن یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب بھی دین کی بات کی جائے تو لوگ علماء پر اعتراضات کی بھرمار شروع کر دیتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ انہیں ڈیزل جیسے دو نمبری لوگ تو تعداد میں کم ہونے کے باوجود نظر آ جاتے ہیں لیکن وہ کروڑوں علمائے دین نظر نہیں آتے جو اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ کے دین کی اشاعت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ اور نہ ہی وہ ہزاروں تبلیغی جماعتیں نظر آتی ہیں جو اپنا گھر بار چھوڑ کر صرف اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لیے در بدر پھرتے رہتے ہیں۔ ان الزام تراشوں کی اکثریت میرے ساتھ اتفاق نہیں کرے گی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کھلے دل کے ساتھ اپنے آس پاس دیکھا جائے تو بیشتر لوگوں کو اپنے آس پاس ہی اللہ کی راہ میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے بہت سے لوگ مل جائیں گے۔ لیکن کوئی کھلے دل سے دیکھنا پسند فرمائے تب نا۔ جنہین مولوی سے پیدائشی دشمنی ہو وہ بھلا ان کی خوبیوں پر نظرِ کرم فرمانا کیوں پسند کریں گے۔
ReplyDeleteویسے میرا مشاہدہ ہے کہ جابجا مولوی پر تنقید کرنے والے اکثر لوگوں کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ مولوی کو اتنا بدنام کر دیا جائے کہ آئندہ اگر انہیں کوئی نیکی کی ترغیب دے یا بدی سے روکے تو ان کے پاس پہلے سے ہی بہانہ تیار پڑا ہو کہ مولوی تو ایسا ہے اور مولوی تو ویسا ہے۔ پھر میں کیوں نیکی کا راستہ اختیار کروں۔
اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ کافی تفصیلی مطالعے اور مشاہدے کے بعد کہہ رہا ہوں۔
نوٹ: میں نے اکثر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ باقی جو بچے ہیں وہ اس اکثریت کے الٹے سیدھے دلائل سے متاثر ہو کر ایسا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ لہٰذا میرے پیچھے نہ پڑنا کہ میں نے آپ کو پہلی نوع میں شمار کیا ہے۔ آپ دوسری نوع میں بھی ہو سکتے ہیں۔ :P
بہت خوب!
ReplyDeleteبھئی ہماری غزلیات بھی ممنوع نہ سہی مشکوک ٹھہریں اس تحریر کے بعد۔ تاہم آپ نے اپنے واسطے نیرہ نور کو حلال ٹھہرایا ہمارے واسطے بھی جگجیت سنگھ کی غزلیات کے روا ہونے کا فتوی صادر فرمائیے کہ اس کے بنا چارہ نہیں۔
بہت خوب تحریر، سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔
دیگر بلاگ پڑھنے والوں کے لیے کہے دیتے ہیں کہ محترمہ سارہ صاحب ہماری چھوٹی بہن ہیں تاہم کچھ عرصے بعد یہ تعارف اس طرح ہوا کرے گا کہ یہ محسن حجازی صاحب سارہ پاکستان کے بڑے نالائق بھائی ہیں۔
دیگر یہ تو ہم کو بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس بلاگ پر موجود زیادہ تر تحاریر خود ہمارے قلم اقدس کی پیداوار ہیں۔ ہم اپنا کلام و دیگر انشائیے وغیرہ یوں ہی فی سبیل اللہ نوآموز لکھاریوں کو دان کر تے رہتے ہیں کہ صدقہ جاریہ رہے۔ بعد کو آگے چل کر بڑے نام بن جاتے ہیں ہمیں پہچانتے تک نہیں جیسے امجد اسلام امجد اور ابن انشا وغیرہ۔ انشا جی اتنے ہینڈ سم آدمی تو نہ تھے کہ گوریاں ان کے پیچھے بے حال ہوتیں اور ہر دوسرے ہفتے واردات قلبی ہوا کرتی یوں جلے تو جلاؤ گوری وغیرہ کے راگ الاپتے پھرتے جبکہ ہماری تو بشمول گوریوں کے کچھ احباب نے تصاویر بھی دیکھ رکھی ہوں گی سو یہی ثبوت کافی ہے باقی یہ کہ عقل مند را اشارہ کافی است کہ ہم کیا فرمانا چاہ رہے ہیں جبکہ عقل کے اندھوں پر تو لاٹھی چارج کے بھی اثرات ندارد۔
محمد سعد
ReplyDeleteشکریہ ۔۔۔۔۔آپ کا کہنا بلکل بجا ہے۔۔۔دین کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے لوگ قابل احترام ہیں۔۔۔اور ہمیں دیں اور مولوی دونوں کو عزت اور احترام دینا ہے۔۔۔۔جو لوگ دیں کے لیے اپنی کاوشوں کو وقف کر چکے ہیں،ہم گناہ گار ان پر تنقید کرنے کی جسارت بھلا کیسے کرسکتے ہیں۔
میں نے اپنی تحریر کو بلکل تعصب سے پاک رکھا ۔۔۔میرا اشارہ صرف میڈیا کے اس رویے کی طرف رہا جہاں رقص و موسیقی کو ماڈرن دین کا حصہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔
باجی میں نے آپ کو تو کچھ نہیں کہا۔ میں نے تو صرف ان لوگوں کی بات کی ہے جو ہر وقت ملا کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہتے ہیں۔
ReplyDeleteمحسن حجازی
ReplyDeleteبھائی جان بہت بہت شکریہ۔۔۔آپ کے اس بھیانک" انکشاف" کے بعد امجد اسلام امجد اور دیگر کا تو نا معلوم کیا ردعمل ہو اس کی کچھ ضمانت نہیں دی جاسکتی۔۔البتہ میرے لیے یہ کس اعزاز سے کم نہیں۔۔۔کے میری ناقص تحاریر کو آپ یہ اونچا درجہ دے رہے ہیں۔۔۔
رہی تعارف کی بات تو جناب چاندنی کتنا ہی پھیل جائے اس کی شناخت چاند نہیں بلکہ سورج ہی رہتا ہے سو سارہ ، محسن حجازی کی چھوٹی بہن ہی رہے گی۔۔۔۔
اور جنہیں آپ اپنے"حسن زن" میں "گوریاں" کہہ گئے۔۔ہمیں تو اعلی کوالٹی کی کاسمیٹٰکس کی دکانیں نظر آتی ہیں۔۔۔ہی ہی ہی ہی
محمد سعد
ReplyDeleteاچھے بھیا! میں کب کہا کہ آپ نے مجھے کچھ کہا ہے۔۔۔میںآپ کی بات کو نا صرف سمجھتی ہوں بلکہ اس کی تائید کررہی ہوں۔۔۔۔
سلام پاکستان
ReplyDeleteبہت پر سوچ اور اچھی تحاریر لکھیں آپ نے۔ ۔ ۔
ہماری نئی نسل سمیت میرے بہت الجھی ہوئی اور کنفیوزڈ ہے انہیں سوالات کے درمیان۔ ۔
اب تو آپ کا بلاگ پڑھنے آنا ہی پڑا کرے گا یہاں۔ ۔ ۔
السلام علیکم سارہ!
ReplyDeleteحساس موضوعات کو طریقے سے ہینڈل کرنا آسان کام نہیں۔ اور اتنا اچھا لکھتی ہیں آپ ماشاٗاللہ۔ میں تو آپ کی فین ہو گئی ہوں۔