دو غلط فہمیاں نہ جانے ہمیںکہاں سے کہاںلے جائیں ۔۔۔منزل کے بہت قریب ہو تے ہوئے بھی ہم کہیںبہت دور ہی نہ ہوجائیں ۔۔۔پہلی خوش فہمی جس میںہم میںسے ایک واضح اکثریت مبتلا ہے کہ ہم وہ امت ہیں کہ ہماری بخشش ہو چکی ہم اپنے کردہ گناہوں کے لیے بہت تھوڑے عرصے کےلیے دوزخ میں جائیںگے اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت ہمارا نصیب ٹھرے گی۔۔۔۔افسوس ہمارا دھیان کبھی اس امت کی طرف نہیںگیا جو ہم سے پہلے ایسے ہی دعوے کی مرتکب ہوئی اور قرآن میں ان سے بیزاری اور عذاب کی وعید کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔
ذرا سوچیے تو ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ آپ پچھلی امت کا ایک فرد ہیں اور میںاس امت میں سے ہوں۔۔۔۔
آپ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیںاور میں۔۔۔۔گناہوںکے بارے میںلاپرواہی کا شکار ہوں کیونکہ میری تو بہرحال بخشش ہو ہی جانی ہے۔۔۔۔۔
اب ہو تا یہ ہے کہ ہم میدان حشر میںکھڑے ہیں۔۔۔آج یوم حساب ہے۔۔۔یہی وہ دن ہے جب ہر کسی کو پورا پورا انصاف ملے گا۔۔۔مگر یہ کیا! جب آپ کے اعمال کو تولا گیا تو کچھ گناہ زیادہ ہی ہوگئے۔۔اور آپ دوزخ میں۔۔میں چونکہ ایک خاص امت سے تھی لہذا کچھ دیر دوزخاور پھر جنت۔۔۔۔۔
کیا انصاف کے دن اس نا انصافی پر آپ احتجاج نہیں کریں گے۔۔۔بھلا جو عدالت لگی ہی انصاف کے لیے،وہاں سے ایسی بےانصافی کی آس ہم کیوں لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔
دوسری خوش فہمی جو ہم نے اپنی کم فہمی کی بناء پر خود پر طاری کی ہوئی ہے،اور ہر دور میںنوجوان نسل اسکا خاص شکار رہی ہے وہ یہ کہ "گناہ کا کوئی منفی اثر لیے بغیر اسکا لطف اٹھایا جاسکتا ہے"حیرت ہے بھئی!
تھوڑا پیچھے جائیے بلکہ کچھ زیادہ پیچھے جائیے تو وہ دور بھی تھا جب متوسط گھرانوں اور خاص کر مذہبی گھرانوں میںریڈیو کے خلاف مزاحمت رہی۔۔۔"گناہ کا کوئی منفی اثر لیے بغیر اسکا لطف اٹھانے" کے نظریے کے پیروکار نوجوانوں نے بغاوت کی۔۔۔۔اور آہستہ آہستہ وہ مزاحمت دم توڑ گئی۔پھر یہی کہانی ٹٰی وی ۔وی سی آر۔ڈش اور پھر کیبل کی آمد پر دہرائی گئی۔۔۔۔۔۔دقیانوسی لوگوں کوبھی آہستہ آہستہ ان چیزوں کے فوائد گنوا کر قائل کر لیا گیا۔۔۔۔۔۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہو تی ۔۔۔کہانی تو یہاںسے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
مغرب میں "پاور فل افیکٹ آف میڈ یا" پر ہونے والی ریسرچز کے نتائج سے بے خبر ہم "مشرقی"لوگ گناہ کا لطف اٹھاتے رہے اسکا کوئی منفی اثر لیے بغیر۔۔۔۔
ان کی ریسرچز کے نتائج "بند ڈبے سے باہر آنے لگے اور ہمارانظریہ ڈبے میں بند۔۔۔۔
ڈبے پر نظر آنے والے بے لگام کردار ہمارے ارد گرد بھی چلنے پھرنے لگ گئے۔۔۔ان کی "باہم گفتگو کا مسلئہ "چھوٹی ڈبیا"نے حل کردیا۔۔۔۔۔۔
اب ذرا ان معاشروں پر ایک نگاہ ڈالیے جہاں اس نظریے کے" پیروکار " اپنے معاشرے کو اس انتہا پر لے گئے ۔۔۔کہ وہاں لوگ اپنی ذات اور شناخت کے بارے میںخود ایک سوال بن کر رہ گئے۔۔۔۔
ذرا سوچیے کہ محض" گناہ کے لطف "کی ہم اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ہم اسی رفتار سے چلتے رہے تو ایک دہائی سے بھی کم کا عرصہ رہ جائے گا۔۔۔اپنی ذات کے بارے میں ایک سوالیہ نشان بننے میں۔۔۔۔۔۔
اب کیا کیا جائے۔۔۔۔؟؟؟کیا ہم اپنے ٹی وی ،پلئیرز وغیرہ گلیوں میں لا کر توڑ ڈالیں۔۔۔۔اور دنیا کے سامنے خود کو ایک تماشا بنا ڈالیں۔۔ہر گز نہیں۔۔۔ہمیںپہلی اور آخری تبدیلی اپنی سوچ میں لانا ہو گی۔۔۔۔۔
گناہ کو گناہ سمجھ کر کیجیے۔۔۔ اس کے بارے دلائل اکھٹے کرنے کی کوشش کی بجائے ۔۔۔۔۔۔یہ طرز فکر آپ کو ایک نہ ایک دن گناہ سے بیزاری پر ضرور مائل کر دے گا۔۔۔۔۔
جسے دیکھیے وہ اپنی غلط کاریوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کے جواز تراشنے پر لگا ہے۔ اس دور میں تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرنا بھی نیکی معلوم ہوتا ہے۔
ReplyDeleteآپ کو نیا بلاگ شروع کرنا مبارک ہو
ReplyDeleteآپ نے اس مضمون کی ابتداء تو درست کی لیکن انتہاء کرتے ہوئے جو بات آپ کے دل میں تھی اُسے صحیح طور بیان نہیں کر سکیں ۔
کوئی بھی فعل بار بار کرنے سے آدمی اُس کا عادی ہو جاتا ہے اور خواہ وہ آدمی اُس فعل کو کتنا ہی بُرا سمجھے اُسے چھوڑ نہیں سکتا ۔ جو طریقہ آپ نے بتایا ہے اس کا اطلاق صرف اُس وقت ہو سکتا ہے جب کسی سے زبردستی وہ فعل کرایا جائے جو گناہ ہے ۔
میں ٹی وی ۔ کمپیوٹر ۔ ریڈیو وی سی آر ۔ وغیرہ توڑنے کے حق میں نہیں بلکہ ان کے مفید استعمال کے حق میں ہوں ۔ کسی بھی چیز کو اس کا استعمال اچھا یا بُرا بناتا ہے ۔
آپ ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہیں میں نے اپنے تجربہ کی بنیاد پر مارچ 1975ء میں ایک تحقیقی مکالہلکھا تھا جس کا ایک باب کمیونیکیشن پر ہے ۔ مندرجہ ذیل ویب سائیٹ پر جا کر
http://iabhopal.wordpress.com/
بلاگ کے عنوان کے نیچے لکھے مندرجہ ذیل چھوٹے عنوانات پر باری باری کلِک کر کے پڑھ سکتی ہیں
6.TRIANGLE OF SUPERVISION
6A.COMMUNICATION
افتخار اجمل بھوپال
ReplyDeleteسر بہت بہت شکریہ ۔۔میری ناقص تحریر کو پڑھنے اور اس پر اپنی قیمتی رائے دینے کا۔۔سر آپ نے بالکل درست کہا کہ "کوئی بھی فعل بار بار کرنے سے آدمی اُس کا عادی ہو جاتا ہے اور خواہ وہ آدمی اُس فعل کو کتنا ہی بُرا سمجھے اُسے چھوڑ نہیں سکتا"سر حآلات وہاں آچکے ہیںکہ ہم گناہ کہ اس حد تک عادی ہوچکے ہیںکہ اب چونکہ اسے چھوڑ نہیںسکتےلہذا اس کے حق میں مذہبی رہنماوں سے فتوے لینے چل پڑے ہیں۔۔سر ایسے حالات میں درجہ بدرجہ کسی" چیز"کو مکروہ بتادینے کی حکمت عملی بھی تو ہمارے سامنے ہے۔۔۔
اس موضوع پر آئندہ کچھ مزید بھی لکھنا چاہتی ہوں۔۔۔امید کرتی ہں آپ آئندہ بھی اپنے قیمتی وقت میںسے کچھ وقت میری ناقص تحریر کے لیے نکالیںگے۔۔۔۔اور سر لنکس کا بہت بہت شکریہ امید ہے آئندہ بھی اپنے علم کے وسیع خزانے سے کچھ نوازتے رہیںگے۔۔۔۔۔
خاور بلال
ReplyDeleteبہت بہت شکریہ۔۔۔۔
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ یہ سب مجھے سنانے کو لکھا ہے؟
ReplyDeletelazzat e gunah ki khatir jis ney haar di thi jannat
ReplyDeleteaakhir meri ragoon mein bhi tau usi Aaadam ka khoon hey
بہت خوب سارہ۔
ReplyDeleteبہت اچھی تحریر ہے۔ ہمیں گناہوں کی اہمیت کا جتلا دیا آپ نے۔بھئی گناہ کو ہم نے اتنا کم اہمیت جانا ہوا ہے کہ اب کوئی گناہ کرتے ہوئے ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔
ReplyDeleteیہ مرض اسی طرح ختم ہو سکتا ہے کہ جب آپ جیسے لوگ گناہوں کی اہمیت جتلا دیں اور بیان کر دیں۔بہت شکریہ
بہت خوب سارہ۔ بہت خوب تحریر ہے۔
ReplyDeleteیہی بات ہمارے ایک محترم استاد سمجھایا کرتے تھے کہ جس دن تم میں گناہ کو گناہ سمجھ کر کرنے کا نظریہ سما گیا اس دن کے بعد تمہیں اس سے تائب ہونے کی توفیق بھی مل سکتی ہے۔
ویسے ایک ہدایت ہے کہ آپ اپنے بلاگ کے علاوہ جہاں بھی اپنی تحریر پیش کریں وہاں نصف سے زیادہ نہ لکھیں اور بقیہ پڑھنے کے لیے اپنے بلاگ کا لنک دے دیں۔ کیونکہ آپ کی تحریر اصلاً بلاگ کی ہے اور تبصرے بھی زیادہ بلاگ پر ہی ہونے چاہئیں۔
فہد بھائی بہت بہت شکریہ۔۔۔
ReplyDeleteآئندہ اپنی تحریر بلاگ پر ہی پوسٹ کروں گی۔باقی جگہ لنک دے دوں گی۔۔۔۔
بہت شکریہ۔۔۔
ڈفر۔۔ بہت شکریہ۔
ReplyDeleteایف ایم۔۔بہت شکریہ۔
ماورا جی ۔۔بہت شکریہ
نعمان بھائی۔۔۔بہت شکریہ۔
ماشاء اللہ، سپر ہٹ جارہی ہیں۔
ReplyDeleteبہت شکریہ؟ :O ۔
ReplyDeleteیعنی مجھے ہی سنایا جا رہا تھا
بہت خوب
ReplyDeleteڈفر
ReplyDeleteنہیں شکریہ تو اس دھیان سے سننے کا۔۔۔۔
بلو۔۔
بہت شکریہ
عمار بھائی بہت بہت شکریہ
ReplyDeleteبہت اچھے۔
ReplyDeleteبہترین۔
ہم خوش ہوئے۔
آپ نے اپنے بلاگ سے کچھ تحریری حذف (ڈیلیٹ) کی ہیں کیا؟ مجھے آج یہاں آ کر کچھ ایسا لگا ہے کہ چند تحریریں غائب ہیں۔
ReplyDeleteفہد بھائی ۔۔میں نے تو کوئی تحریر ڈٰیلیٹ نہیں کی۔۔۔۔اس بلاگ پر تو فی الحال اتنا ہی لکھا ہے۔۔۔۔
ReplyDeleteیہ بلاگ شروع کرنے سے پہلے کچھ یہاںلکھا تھا
http://artandarticle.synthasite.com
گر یہ تو اب ذرا پرانی بات ہوگئی۔۔۔۔بلاگ
Archive
میں ہو سکتا ہے کے ہوں میری کوئی ایسی تحریر جو آپ کے خیال میںیہاںنہیں ہے؟؟؟
ماشاءاللہ بہت خوب لکھتی ہیں ٓپ۔ ۔
ReplyDeleteحاضری ہوتی رہے گی یہاں انشاءاللہ۔ ۔
sara aap ka blog parha bohat achii soch hai welldone
ReplyDeleteبہت اچھی باتیں ہیں۔ عمل کرنا چاہیے۔
ReplyDeleteبہت عمدہ تحریر ہے اور کم ہی لوگ ہوں گے جو اس پر اختلاف کر سکیں گے کہ گناہ کو کم از کم گناہ سمجھنا چاہیے کیونکہ یہی چیز آپ کے اندر کشمکش کو جاری رکھتی ہے ورنہ کشمکمش ہی ختم ہو جائے تو پھر گناہ میں کیا چیز حائل رہ جاتی ہے
ReplyDeleteبہت خوب! خوب احساس دلایا ہے آپ نے۔
ReplyDeleteمحب علوی کے تبصرے سی اس تحریر کا مرکزی خیال حاصل کیا جا سکتا ہے۔
خوش رہیے۔