Monday, August 3, 2009

۔۔۔۔۔۔۔سب دوست ہوتے ہیں‌

ہماری میسنی صورت دیکھ کر تو لوگ ہمیں‌ہماری چھ سال چھوٹی بہن سے بھی چھوٹا سمجھتے ہیں‌مگر یہ انکشاف ہم پر حال ہی میں‌ہوا ہے کہ ہماری تحاریر سے کچھ لوگ ہمیں‌کوئی سمجھدار آنٹی سمجھ لیتے ہیں‌یہ انکشاف یقینا دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے بھیانک بھی تھا ہمارے لئے سو ویسے تو ہم لکھنے لکھانے سے فرار حاصل کئے ہوئے ہیں‌کچھ عرصہ سے مگر چونکہ یہ ہمارا خود سے عہد ہے کہ جب بھی لکھیں‌گے معاشرے کے اصلاح‌کے لئے ہی لکھیں‌گے ۔۔۔۔سو یہ تحریر بھی معاشرے میں‌موجود اس بھیانک تاثر کی اصلاح‌کے لئے ہے کہ ہم کوئی آنٹی ہیں‌۔۔۔۔۔ہاں‌سمجھدار سمجھنے میں‌کوئی قباحت نہیں‌ہے کیونکہ وہ توآپ ہمیں‌نہ بھی سمجھیں‌تو بھی ہم ہیں‌اور اگر سمجھ لیں‌گے تو بس ذرا ہمیں‌یقین سا آجائے گا اور کیا ۔۔۔۔۔
ہمیں‌اگر اندازہ ہوتا کہ ہماری تحاریر سے یہ تاثر ابھرے گا تو یقینا ہم کبھی اتنا بڑا رسک نہ لیتے ۔۔۔۔
اپنی عمر کے تاثر کو درست رکھنے کے لئے یقینا فلموں‌،گانوں‌،ڈراموں‌کے ریویوز ،فیشن ،ایس ایم ایس ،فن کاروں‌کی شادیاں‌اور طلاقیں‌۔۔۔اینڈ‌وا‌ٹ‌ناٹ‌۔۔۔۔۔بہت سارے ایشوز تھے بہت سے مسائل تھے جنہیں‌ہم بیان کرسکتے تھے ۔۔۔اور نوجوان نسل کے لئے اپنی تحاریر کے ذریعے بہتر آگاہی پھیلا سکتے تھے جس سے نوجوانوں‌کو بھی فائدہ ہوتا اور ہمیں‌بھی کوئی آنٹی نہ سمجھتا ۔۔۔۔۔۔
لفظ‌آنٹی سے ہمیں‌ایک دلچسپ واقعہ یاد آجاتا ہے تو خوب ہنسی آتی ہے آپ بھی سنیے اگر آپ کو ہنسی نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ آپ بھی آنٹی ہیں‌۔۔۔۔۔
ہوا یہ کہ ہم چھٹی جماعت میں‌نئے سکول میں پہلے دن گئے ۔ہم بستہ لٹکائے سکول کے اندر کھڑے ہوکر اپنے کلاس روم کا تعین کرنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ سامنے والے کمرے سے ایک آنٹی یونیفارم میں‌برآمد ہوئیں‌بخدا اپنے قد کاٹھ بناو سنگھار اور چال ڈھال سے ہمیں‌وہ آنٹی ہی معلوم ہوئیں‌۔۔۔ہم نے سوچا ان سے پوچھا جائے کہ آنٹی سکستھ کلاس کہاں‌ہے مگر پھر فورا ہی ہمیں‌خیال آیا کہ انہیں‌آنٹی نہیں‌کہنا چاہیے کیونکہ انہوں نے بھی ہمارے جیسا ہی یونیفارم پہن رکھا ہے ہم آج بھی حیران ہیں‌کہ ہم تب بھی اتنے ہی علقمند ہوا کرتے تھے جتنے کہ اب ہیں‌۔۔۔۔۔۔
ہمیں‌باجی کہنے کی عادت نہ تھی کیونکہ ہماری کوئی باجی تھی ہی نہیں‌۔۔۔۔۔صرف ایک بھائی جان ہیں‌جن کے زیرتسلط معاف کیجئے گا جن کے زیر سایہ ہم کھیلتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب ہم نے بہت ہمت کر کے وہ نامانوس لفظ‌ یعنی باجی اپنے منہ سے نکالا۔۔۔۔باجی کلاس سکستھ کہاں‌ہے ؟۔۔۔یہ سننا تھاکہ باجی کا منہ لال ہوگیا اور پھر ہمیں‌کوئی قریبا آدھا گھنٹے کی باجی کی تقریر سننی پڑی جس میں‌جوش تھا غصہ تھا اور نہ جانے کیا کیا تھا مگر اس تقریر کا حاصل کلام ان کا ایک جملہ تھا جسے وہ بار بار دہراتی تھیں‌،دیکھو سکول میں‌کوئی کسی کی باجی نہیں‌ہوتی سب دوست ہوتے ہیں‌۔۔۔اس کے آگے پیچھے وہ کیا فرماتی تھیں‌ہمیں‌یاد نہیں‌رہا کیونکہ ہمارا دماغ تو ان کے کڑے تیور دیکھ کر ماوف ہوچکا تھا پھرجب باجی نے دیکھا کہ ہم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سہم گئے ہیں‌اور ہماری آنکھوں‌کا پانی بس کسی بھی لمحے چھلکنے ہی والا ہے تو وہ کچھ ٹھنڈی ہوئیں‌اورھر بڑے پیار سے ہمیں‌چمکارتے ہوئےآخری بار انہوں‌نے فرمایا دیکھو سکول میں‌کوئی کسی کی باجی نہیں‌ہوتی سب دوست ہوتے ہیں‌۔۔۔۔اور پھر ہمارا بیگ رکھوا کر ہمیں‌اپنے زیر شفقت اسمبلی میں‌لے گئیں‌اور واپس بھی لائیں‌اور کلاس میں‌بڑے پیار سے ہمیں‌اپنے پاس بٹھایا اور ہم اتنے معصوم تھے کہ ہمیں‌پھر بھی اپنی حماقت کا احساس نہ ہوا ۔۔۔وہ تو اب سوچتے ہیں‌تو سمجھ آتا ہے کہ ہم نے لاعلمی میں‌اپنی کلاس فیلو کو باجی کہہ دیا تھا ۔۔۔۔۔
تو جناب اگر ہماری کسی تحریر سے اس قدر سنجیدگی کا تاثر ابھرا ہے کہ ہمیں‌آنٹی ہی جان لیا جائے تو ہم آئندہ اپنی تحریر میں‌اس بات کا خاص‌خیال رکھیں‌گے کیونکہ بہرحال ایج کانسیش ہونے کا ہمیں‌حق ہے اور عمر چھپانے کا بھی ۔۔۔
ہم محتاط رہیں‌گے مگر آپ سب بھی محتاط رہیں‌۔۔دیکھیں‌بلاگنگ کی دنیا میں‌کوئی کسی کی باجی نہیں‌ہوتی اور آنٹی تو بالکل بھی نہیں۔۔۔سب دوست ہوتے ہیں‌۔۔۔یاد رہے کہ یہ اصول مستقبل میں‌بھی لاگو رہے گا ۔