Monday, December 29, 2008

موہن جی آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔

موہن جی دیکھ لیا آپ نے ہمارا ملکی دفاع کا جذبہ آپ نے دیکھا کے ہم دفاع خاطر پر جوش چھتوں‌پر نعرے لگانے لگے،کتنا جذبہ ہے ہم میں۔۔۔۔اور یہ ہی وہ جذبہ ہے جس سے ہم دنیا پر راج کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اور دہکھیں تو اس جذبے نے آپ کو اتنا ڈرا دیا کہ آپ کے وزیر خارجہ اپنے بیانات سے ہی مکر گئے،اور ہم سے پھر سے دوستی استوار کرنے کہ خواہاں ہوئے،اور دوستی میں ہم سے وہ مطالبہ کیا جو پہلے بھی ہمارے دوست ہم سے کرتے آئے ہیں یعنی "‌دہشت گردی کے خلاف ملکر جنگ"۔۔۔۔ارے دوستی کی خاطرتو ہم اپنی غیرت بھی قربان کردیتے ہیں۔۔۔ہم یہ جنگ اپنے دوستوں کے ساتھ ملکر اپنے ہی وطن میں‌لڑ‌بھی رہے ہیں ۔۔۔آپ کو اس دوستی پر کبھی مایوسی نہ ہو گی۔۔۔۔۔۔
مگر موہن جی ہمیں آپ سے ایک شکایت ہے ،آپ نے دیکھا نا کہ ہمارے لوگ آپ کے بیانات کی وجہ سے کس قدر جوش میں‌آگئے تھے۔۔۔۔اپنے وطن کی حفاظت کے لیے پرعزم۔۔۔بس آپ کے اعلان جنگ کا انتظار تھا ہم آپ کو ناکوں چنے چبوا دیتے۔۔۔۔۔مگر موہن جی آپ نے ہمیں تب کیوں نہ للکارا جب آپ کا ملک دنیا میں ایک بڑی اکناماک پاور بننے کے سفر پر نکلا تھا۔۔۔۔ایسے بیانات اور اعلان جنگ کا عندیہ آپ نے تب کیوں نہ دیا جب آپ کے ملک کی ثقافت کو ہم اپنانے جارہے تھے۔۔۔ہمارے گھر گھر میں‌آپ کی ثقا فت کا اہم جز ،رقص پہنچ گیا اور ہم اسے اپنی ہی ثقا فت کہنے پر اصرار کرنے لگے۔۔۔۔
آپ نے ہمیں تب کیوں نہ طعنے دیے جب ہم اپنے ملک میں‌ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی اور افرادی قوت ہونے کے باوجود آپ سے آلو پیاز منگوا کر کھاتے رہے۔۔۔۔۔
موہن جی اگر ایسے ہی اشتعال انگیز بیانات آپ تب دے دیتے تو یقین مانئے میرے ملک کے جذبوں سے سرشار شہری اس میدان میں بھی آپ کو منہ توڑ‌جواب دینے کا عزم رکھتے۔۔۔۔۔
ہم پر امن لوگ سمجھ ہی نہ پائے کہ کب آپ نے یہ تمام محاذ کھولے اور کب ان محاذوں پر فتح کے نشے نے آپ کو اتنا مغرور کر دیا کہ آپ ہمیں آنکھیں‌دکھانے لگے۔۔۔
موہن جی آپ کی خاموشی سے ہم دھوکہ کھا گئے۔۔۔موہن جی آپ نے خاموش رہ کر اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔موہن جی آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔

Friday, December 26, 2008

جنگ سے میرا چولہا بجھ جائے گا

میرا تعلق کسی گروہ ،کسی فرقے سے نہیں ،میرا تعلق تو بس انسانیت سے ہے۔میں کسی ملک کا باسی یا کسی ملک کا محافظ بھی نہیں‌میں تو بس ایک انسان ہوں‌ایک عام سا انسان میری جان کے ساتھ چھ جانیں اور بھی وابستہ ہیں۔۔۔میری دن بھر کی مزدوری سے ایک وقت کا چولہا بمشکل جلتا ہے ۔۔۔۔۔
اب جو جنگ کے بادل منڈ لا رہے ہیں یہ بھلا کس حق اورکس باطل کی جنگ ہے ۔۔۔میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے میں جاہل ہوں شاید اس لیے۔۔۔۔مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ اس جنگ سے میرا چولہا بجھ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں پتہ کہ اقتدار کا نشہ کیسا ہوتا ہے ۔۔۔مجھے کیا پتہ جیت کی خوشی کسے کہتے ہیں میرے لیے تو وہ دن مسرور کن ہوتا ہے جب مجھے مزدوری مل جاتی ہے۔۔۔۔میرے لیے تو وہ رات خوشی کی ہوتی ہے جب میرے ساتھ وابستہ جانیں ‌پیٹ‌ بھر کر سوتی ہیں۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم جنگ فتح کے لیے لڑی جاتی ہے۔۔۔مجھے تو بس یہ معلوم ہے کہ اس جنگ سے میرا چولہا بجھ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں‌خود میں‌دشمن کے خلاف جوش اور نفرت بھی محسوس نہیں‌کر پاتا کہ انسانوں کی قائم کی ہوئی سرحدوں کے اس پار بھی انسان ہی بستے ہیں۔۔۔میری ہی طرح کے انسان ۔۔۔بس عام سے انسان۔۔۔۔۔میری ہی طرح کسی کا مان، کسی کے لیے شفقت اور کسی کا سہارا۔۔۔بھلا ان کو زخموں میں چور دیکھ کر ، ان مجبوروں کو اور مجبور دیکھ کر میرا ایمان تازہ اور میرا حوصلہ کیسے بلند ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔اس جنگ سے تو انسانیت کا حوصلہ مر جائے گا ۔۔۔۔اس جنگ سے تو میرا چولہا بجھ جائے گا۔۔۔۔

Wednesday, December 24, 2008

میڈٰیا

سمجھ نہیں آتی کہ بھلا ہاتھ میں بڑا سا مگ لیے اول فول بولتی خآ تون ،ورزش کے نام پر اچھلتی کودتی لڑکی اور خوش رہنے کے طریقوں پر مبنی گھنٹے بھر کا لیکچر جس کا ما حصل یہ ہو تا ہے کے خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ خوش رہا جائے ناخوش نہ رہا جائےاور بس خوش رہا جائے۔۔بھلا یہ سب نوجوانوں پر منفی اثرات کیسے ڈال سکتا ہے۔۔۔۔
ہا ں مگر پھر بھی میڈیا ہمارے نوجوانوں پر منفی اثرات ڈال تو رہا ہے ان اثرات کو سمجھنے کے لیے ضڑوری ہے کہ پہلے ہم نوجوانوں کو سمجھیں ہمارے ہاں عموماً دو اقسام کے نوجوان پائے جاتے ہیں‌ایک وہ جو با لکل بھی فارغ نہیں اور دوسرے جو با لکل ہی فارغ ہیں۔۔
اب جو با لکل ہی فارّغ ہیں وہ اب اتنے بھی فارّغ نہیں‌ کہ مار ننگ شوز دہکھ پائیں اب نیند لینا بھی تو ان کے فرائض میں شامل ہے نا۔۔ یہ قسم عموماً سر شام سے رات گئے تک میڈیا کے زیر تسلط رہتے ہیں۔۔اور یوں‌ہی کو ئی اوٹ پٹانگ قسم کا میوؤیکل شو دیکھتے ہوئے ان پر انکشاف ہوتا ہے کے کوئی ہے جو ان کے جذ بات کو سمجھتا ہے اور انہیں ملکہ عالیہ کو منانے کے لیے 12 آنے کا پیکج دے رہا ہے ۔۔۔ارے ز بردست!‌
سو یہ "نرگسوں" میں پلے " زخًم خوردہ " شاہیں‌ منہ اندھیرے (ہعنی دن 12 بجے ہی، "را ہ رسم شہبازی "نبھانے کے لیے یہ پیکج خر یدنے نکل پڑ‌تے ہیں۔۔۔اور گلی کے کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر جی جان ایک کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب دوسری جانب نا راض بیٹھی ملکہ عالیہ بھی کوئی ایسے ہی فار غ نہیں بیٹھی ہو تیں‌۔۔۔ وہ میڈ یا سے پوری
ٹر یننگ لے رہی ہو تی ہیں‌۔۔۔ میڈیا انہیں بتا تا ہے کہ کیسے انہیں اپنے متوقع ظالم و جابر سسرال میں جا تے ہی ایک خؤ فنا ک بلا کا روپ دھار نا ہے یا پھر یہ کہ بے وقوفی کی حد تک معصؤ میت سے زندگی کے سنجیدگی طلب
مسا ئل سے نبرد آزما ہو نا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جو نوجوان زندگی میں لو میرج کے علاوہ بھی کچھ کر نا چا ہتے ہیں ۔۔۔اور زندگی میں بیت کچھ سیکھنا اور آگے بڑھنا چا ہتے ہیں ،ان کے لیے میڈیا کے پاس کچھ بھی نہیں۔۔۔کیر ئیر کونسلنگ کے پرو گرام آٹے میں نمک سے بھی کم۔۔میڈیا نہیں بتا تا کے آجکل کون کونسی فیلڈ ز میں کیا کیا موا قع ہیں ۔۔۔۔ کوئی فا صٌلاتی تعلیم کا پروگرام نہیں۔۔۔کوئی ادب ،تمیز کی بات نہیں۔۔۔۔میڈیا کو صرف اور صرف آرٹ اور کلچر کی بڑھوتی کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے اور کلچر بھی وہ جس سے دوری کی بنا پر اس مملکت کی بنیاد رکھی گئی۔۔۔۔آج اسکو اپنا کہلوانے کے لیے میڈیا دن رات ایک کیے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
طاوس و رباب کو اولیت دینے والا میڈٰیا معا شرے مین اپنی ذمہ داری کو سمجھ ہی نہیں پا یا ۔۔۔۔ مذ ہبی پروگراموں میں بھی کردار کے غازیوں کی بجائے الفاظ کے جا دوگروں کا میلہ یوں لگتا ہے کہ ایک با شعور نوجوان خؤد کو مسلمان کہلوانے میں عار محسوس کر نے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اب بات رہی ہماری ذمہ داری کی تو ۔۔۔ نو جواں میڈیا‌کے منفی اثرات دیں سے دوری کی بنا پر لے رہے ہیں۔۔۔اس کے لیے مثال مغرب سے لی جا تی ہے کہ وہاں مذ ہب کو دنیاوی معا ملا ت سے ا لگ کر نے کی بنا پر ہی ترقی ہوئی ہے ،مگر اس دوری کے معاشرے پر اثرات کا جائزہ بہی تو لیا جائے۔۔۔۔۔۔مذ ہب کچھ بھی نہیں ہے صرف انسان اور حیوان میں پہچان کا ذریعہ اور انسان کو مہذ ب اور پر امن معا شرہ مہیا کر نے کا ضا من ۔۔۔۔۔
ریسرچ ،علم کے حصول اور ایجادات سے مذ ہب نے کب منع کیا ہے۔۔۔۔صر ف دین سے قر بت ہی میڈیا کے پھیلا ئے
ہوئے منفی اثرات کا واحد حل ہے۔۔۔
والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ جیسے انہوں نے اپنے بچے کو پاوں پاوں چلنا سکھا یا۔۔۔ نو جوانی میں ایک بر پھر اس
آُ پ کی ضرورت ہے ۔۔۔وہ چلتے ہوئے لڑ‌کھڑاے گا۔۔۔شاید گر بھی پڑے۔۔۔اسے سہارا دیجیے۔۔پرائیویسی اور شخصی آزادی کے نام پر اسے اس بھیڑ میں تنہا مت چھو ڑیں۔۔۔۔۔
سارہ پاکستان۔