Monday, August 3, 2009

۔۔۔۔۔۔۔سب دوست ہوتے ہیں‌

ہماری میسنی صورت دیکھ کر تو لوگ ہمیں‌ہماری چھ سال چھوٹی بہن سے بھی چھوٹا سمجھتے ہیں‌مگر یہ انکشاف ہم پر حال ہی میں‌ہوا ہے کہ ہماری تحاریر سے کچھ لوگ ہمیں‌کوئی سمجھدار آنٹی سمجھ لیتے ہیں‌یہ انکشاف یقینا دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ قدرے بھیانک بھی تھا ہمارے لئے سو ویسے تو ہم لکھنے لکھانے سے فرار حاصل کئے ہوئے ہیں‌کچھ عرصہ سے مگر چونکہ یہ ہمارا خود سے عہد ہے کہ جب بھی لکھیں‌گے معاشرے کے اصلاح‌کے لئے ہی لکھیں‌گے ۔۔۔۔سو یہ تحریر بھی معاشرے میں‌موجود اس بھیانک تاثر کی اصلاح‌کے لئے ہے کہ ہم کوئی آنٹی ہیں‌۔۔۔۔۔ہاں‌سمجھدار سمجھنے میں‌کوئی قباحت نہیں‌ہے کیونکہ وہ توآپ ہمیں‌نہ بھی سمجھیں‌تو بھی ہم ہیں‌اور اگر سمجھ لیں‌گے تو بس ذرا ہمیں‌یقین سا آجائے گا اور کیا ۔۔۔۔۔
ہمیں‌اگر اندازہ ہوتا کہ ہماری تحاریر سے یہ تاثر ابھرے گا تو یقینا ہم کبھی اتنا بڑا رسک نہ لیتے ۔۔۔۔
اپنی عمر کے تاثر کو درست رکھنے کے لئے یقینا فلموں‌،گانوں‌،ڈراموں‌کے ریویوز ،فیشن ،ایس ایم ایس ،فن کاروں‌کی شادیاں‌اور طلاقیں‌۔۔۔اینڈ‌وا‌ٹ‌ناٹ‌۔۔۔۔۔بہت سارے ایشوز تھے بہت سے مسائل تھے جنہیں‌ہم بیان کرسکتے تھے ۔۔۔اور نوجوان نسل کے لئے اپنی تحاریر کے ذریعے بہتر آگاہی پھیلا سکتے تھے جس سے نوجوانوں‌کو بھی فائدہ ہوتا اور ہمیں‌بھی کوئی آنٹی نہ سمجھتا ۔۔۔۔۔۔
لفظ‌آنٹی سے ہمیں‌ایک دلچسپ واقعہ یاد آجاتا ہے تو خوب ہنسی آتی ہے آپ بھی سنیے اگر آپ کو ہنسی نہ آئے تو سمجھ لیجئے گا کہ آپ بھی آنٹی ہیں‌۔۔۔۔۔
ہوا یہ کہ ہم چھٹی جماعت میں‌نئے سکول میں پہلے دن گئے ۔ہم بستہ لٹکائے سکول کے اندر کھڑے ہوکر اپنے کلاس روم کا تعین کرنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ سامنے والے کمرے سے ایک آنٹی یونیفارم میں‌برآمد ہوئیں‌بخدا اپنے قد کاٹھ بناو سنگھار اور چال ڈھال سے ہمیں‌وہ آنٹی ہی معلوم ہوئیں‌۔۔۔ہم نے سوچا ان سے پوچھا جائے کہ آنٹی سکستھ کلاس کہاں‌ہے مگر پھر فورا ہی ہمیں‌خیال آیا کہ انہیں‌آنٹی نہیں‌کہنا چاہیے کیونکہ انہوں نے بھی ہمارے جیسا ہی یونیفارم پہن رکھا ہے ہم آج بھی حیران ہیں‌کہ ہم تب بھی اتنے ہی علقمند ہوا کرتے تھے جتنے کہ اب ہیں‌۔۔۔۔۔۔
ہمیں‌باجی کہنے کی عادت نہ تھی کیونکہ ہماری کوئی باجی تھی ہی نہیں‌۔۔۔۔۔صرف ایک بھائی جان ہیں‌جن کے زیرتسلط معاف کیجئے گا جن کے زیر سایہ ہم کھیلتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
تو جناب ہم نے بہت ہمت کر کے وہ نامانوس لفظ‌ یعنی باجی اپنے منہ سے نکالا۔۔۔۔باجی کلاس سکستھ کہاں‌ہے ؟۔۔۔یہ سننا تھاکہ باجی کا منہ لال ہوگیا اور پھر ہمیں‌کوئی قریبا آدھا گھنٹے کی باجی کی تقریر سننی پڑی جس میں‌جوش تھا غصہ تھا اور نہ جانے کیا کیا تھا مگر اس تقریر کا حاصل کلام ان کا ایک جملہ تھا جسے وہ بار بار دہراتی تھیں‌،دیکھو سکول میں‌کوئی کسی کی باجی نہیں‌ہوتی سب دوست ہوتے ہیں‌۔۔۔اس کے آگے پیچھے وہ کیا فرماتی تھیں‌ہمیں‌یاد نہیں‌رہا کیونکہ ہمارا دماغ تو ان کے کڑے تیور دیکھ کر ماوف ہوچکا تھا پھرجب باجی نے دیکھا کہ ہم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سہم گئے ہیں‌اور ہماری آنکھوں‌کا پانی بس کسی بھی لمحے چھلکنے ہی والا ہے تو وہ کچھ ٹھنڈی ہوئیں‌اورھر بڑے پیار سے ہمیں‌چمکارتے ہوئےآخری بار انہوں‌نے فرمایا دیکھو سکول میں‌کوئی کسی کی باجی نہیں‌ہوتی سب دوست ہوتے ہیں‌۔۔۔۔اور پھر ہمارا بیگ رکھوا کر ہمیں‌اپنے زیر شفقت اسمبلی میں‌لے گئیں‌اور واپس بھی لائیں‌اور کلاس میں‌بڑے پیار سے ہمیں‌اپنے پاس بٹھایا اور ہم اتنے معصوم تھے کہ ہمیں‌پھر بھی اپنی حماقت کا احساس نہ ہوا ۔۔۔وہ تو اب سوچتے ہیں‌تو سمجھ آتا ہے کہ ہم نے لاعلمی میں‌اپنی کلاس فیلو کو باجی کہہ دیا تھا ۔۔۔۔۔
تو جناب اگر ہماری کسی تحریر سے اس قدر سنجیدگی کا تاثر ابھرا ہے کہ ہمیں‌آنٹی ہی جان لیا جائے تو ہم آئندہ اپنی تحریر میں‌اس بات کا خاص‌خیال رکھیں‌گے کیونکہ بہرحال ایج کانسیش ہونے کا ہمیں‌حق ہے اور عمر چھپانے کا بھی ۔۔۔
ہم محتاط رہیں‌گے مگر آپ سب بھی محتاط رہیں‌۔۔دیکھیں‌بلاگنگ کی دنیا میں‌کوئی کسی کی باجی نہیں‌ہوتی اور آنٹی تو بالکل بھی نہیں۔۔۔سب دوست ہوتے ہیں‌۔۔۔یاد رہے کہ یہ اصول مستقبل میں‌بھی لاگو رہے گا ۔

Monday, June 1, 2009

چکن مرغی کیا ہوتا ہے؟

عمار بھائی (عمار ابن ضیاء ۔نے اپنے بلاگ پر پوچھا ہے کہ چکن قورمہ وغیرہ تو سن رکھا ہے۔ یہ چکن مرغی آخر کیا ہوتا ہے ؟
تو جناب ہم خود تو چونکہ عرصہ ہوا مرغی اور انڈے کھانے سے کنارہ کش ہوچکے ہیں‌ اس لئے اس پرندے پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں‌،ویسے مرغی کھانا چھوڑ دینے کی وضاحت شروع شروع میں‌ہم گھر والوں‌کو یوں‌ پیش کرتے تھے کہ یہ آپ جسے مرغی سمجھ کر کھاتے ہیں‌ یہ وہ مرغی نہیں‌ ہے بلکہ یہ ایک نیا پرندہ ایجاد کیا گیا ہے جو مرغی سے مشابہ ہے ہماری اس وضاحت پر گھر والے بس خاموش ہوجاتےسوچتے ہوں‌گے کہ یہ تو پاگل ہے ،بخدا انہوں‌نے کبھی ایسا کہنے کی جسارت نہیں‌کی لیکن سبھی کے منہ کے زاویوں‌سے ہم نے یہی اندازہ لگایا ۔
یہ وہ پرندہ ہے جس کا کوئی شجرہ نسب نہیں‌ ہوتا یہ مشینوں‌سے بنتا ہے اور اسے مشینی لوگ کھاتے ہیں‌۔۔۔۔۔۔کئی منزلہ پنجروں‌ میں‌ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوئے بے زبان پرندے ۔۔۔۔۔جن کے منہ سے آواز صرف اسی لمحے نکلتی ہے جب ان کے گلے پر چھری پھرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر بس کچھ ہی دیر بعد گہری خاموشی ۔۔۔۔۔۔۔نہ یہ بے چارہ پرندہ مرغیوں‌کی طرح‌گرمیوں‌کی دوپہروں‌ میں‌خوب خوب شور مچاتا ہے ۔۔۔۔۔۔نہ دانہ دنکا چگتا ہے بس سہما سہما پنجرے میں‌ایک دوسرے سے بھی بیگانہ سا کھڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
اس کے پروں سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کو کھانے والے کا تعلق کس کلاس سے ہوگا ۔۔۔۔۔۔خوب سفید اور بھرے بھرے پروں‌والا یقینا ذرا اپر کلاس کے دسترخوان کی زینت بنے گا اور اگر پیلے میلے میلے اور کہیں‌کہیں‌سے جھانکتی ہوئی جلد والاپرندہ یقینا ان کے لئے ہے جو اسے خاص اہتمام سے کھاتے ہیں‌۔۔۔۔۔۔۔۔
تو کیا یہ ہوتی ہے چکن مرغی نہیں‌جناب یہ تو ہم مرغی کی وضاحت فرما رہے تھے چکن مرغی کا ذکر خیر تو ابھی کرتے ہیں‌۔۔۔۔پہلےمرغی کی بات تو ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرغی کو ہمارے کلچر میں‌خؤاہ مخواہ ہی ایک اعلیٰ‌مرتبے پر فائز کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔مہمان کومرغی کے سوا دنیا کر ہر سوغآت کھلا دو وہ ناراض‌ہی جائے گا کہ مرغی نہیں‌کھلائی ۔۔۔۔اور اگر دستر خوان پر ٹانگ مہمان کی جانب بڑھا دی جائے تو ۔۔۔۔۔مہمان کا ہر گلہ شکوہ دور ہوجاتا ہے لیکن خیال رہے کہ ٹانگ مرغی کی ہی ہو ۔۔۔۔۔۔
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مرغی بازار میں‌کیا بھاومل رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔کم از کم مل تو رہی ہے نا ،۔۔۔۔۔بازار سے مرغی لےآئیے ۔۔۔۔پکانی نہیں‌آتی تو ٹی وی آن کر لیجئے ۔۔۔۔ہر تیسرے چینل پر ایک شیف ایک عدد مرغی کو تختہ پر ڈالے مصالحے چھڑک کر اوون میں‌رکھنے جا رہا ہو گا ۔۔۔۔آپ بھی اس کے پیچھے پیچھے جائیے ۔۔۔لیجئے جناب مرغی کچھ ہی دیر میں‌تیار ۔۔۔۔۔۔دالیں‌مہنگی ہونے کا رونا تو خواہ مخواہ ہی ہے ۔۔۔۔۔اب اس روسٹ ہوئی مرغی کوچھری کانٹوں‌سے کھالیجئے ۔۔۔۔۔بھول جائیے کہ ارد گرد کیا ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔اس مرغی سے ہی کچھ سبق لیجئے اپنے پنجرے میں‌ خاموشی سے سہمی ہوئی اس وقت تک خاموش ہی رہتی ہے جب تک قصائی کا ہاتھ اس کی جانب نہیں‌بڑھتا ۔۔۔۔۔۔اور ابھی تو قصائی کا ہاتھ ہم سے کچھ دور ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔جس کا گلہ کٹ رہا ہے اس نے تو شور مچانا ہی ہے سو اسے مچانے دیجئے ۔۔۔۔۔معاف کیجئے گا بات شاید کچھ ادھر ادھر ہورہی ہے اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں‌یعنی چکن مرغی تو جناب یہ وہ مرغی ہے جو چکن بھی ہوتی ہے یا شاید یہ وہ چکن ہے جو کچھ کچھ مرغی بھی ہوتا ہے ۔۔۔اصل میں‌زندگی موت ہر ذی روح‌ کے ساتھ وابستہ ہے سو شاید یہی حقیقت کسی مرغی یا کسی چکن کو بیک وقت چکن مرغی بنا دیتی ہے شاید اسی لئے یہ سوغات صرف ہوٹلوں‌ پر ہی دستیاب ہوتی ہے گھرپر تو آپ لاکھ کوشش کریں‌یہ ڈش بنانا ممکن نہیں‌ہے ۔۔۔۔۔
اس پرندے کی خوراک میں‌کچھ حرام اجزاکے بارے میں‌بھی خوب شور مچا مگر ۔۔۔۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں‌کہ کسی بھی معاشرے میں‌کسی حرام چیز کا استعمال کا اثر وہاں‌کے لوگوں‌کے ظآہر اورباطن میں‌واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔اس سے تو اچھا ہے کہ انسان زہر میں‌بجھی ہوئی سبزیاں‌ہی کھا لے ۔۔۔۔

Wednesday, May 27, 2009

خیر خیریت کی پوسٹ‌

ابھی ڈفر کا تبصرہ پڑھا تو احساس ہوا کہ واقعی مجھے دو مہینے ہوگئے ہیں‌ بلاگ پر کچھ بھی پوسٹ‌کیے ہوئے ،ڈفر کا کہنا ہے کہ میں‌خیر خیریت کی ہی پوسٹ کر دوں‌،تو جناب میں‌اللہ کا شکر ہے بالکل خیریت سے ہوں‌۔۔۔۔بس سستی آڑے آگئی شاید ۔۔۔بس کچھ مصروفیت بھی آج کل ایسی ہے کہ بہت کچھ دماغ میں‌چلتا تو رہتا ہے مگر اسے تحریر ہی نہیں‌کرتی ۔۔۔۔بلکہ میں‌تو بلاگ کو کلوز کرنے کا سوچ رہی تھی کہ جب فرصت ملے گی تو تب دوبارہ شروع کرلوں‌گی بلاکنگ ۔۔۔۔۔سوچتی ہوں‌کہ جب بھی لکھوں‌اس کا کوئی مقصد کوئی پیغآم ہو ۔۔۔قلم کی بڑی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے لکھاری پر اگر اسے محسوس کیا جائے تو ۔۔۔کیونکہ ہمارا ایک لفظ‌ایک لفظ پڑھنے والے کے دماغ کے کسی نہ کسی گوشے میں‌ ضرور رہ جاتا ہے ۔۔۔۔بطور ماس کمیونیکیشن کی سٹوڈنٹ‌ہونے کے ناطے کمیونیکیشن کے کسی بھی میڈیا کی اہمیت کا احساس اس قدر واضح‌ہوتا جارہا ہے کہ کبھی کبھی تو ڈر لگنے لگتا ہے کہ کہیں‌میں‌ اس میڈیا ٹول کا بے مقصد یا غلط استعمال نہ کر جاوں‌۔۔۔بس اسی لیے سوچتی ہوں‌کہ تحریر کو بامقصداور تعمیری سمت میں‌ہونا چاہیے محض‌وقت گزاری یا اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے تو شاید بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر پڑھنے والوں‌کے لئے لکھنا بہت مشکل کام ہے ۔۔۔۔۔انشا ء‌اللہ بہت جلد دوبارہ لکھنا شروع کروں‌گی ۔۔۔۔جیسے ہی ذہنی فرصت کے لمحات میسر آتے ہیں۔۔۔اور میں‌بہت ممنون ہو ں‌ان سب حضرات و خواتین کی جو خود بہت عمدہ لکھتے ہیں‌اور ان کی تحاریر بہت پختہ ہوتی ہیں‌اور انہیں‌اس میدان میں‌ بہت عرصے بھی ہوگیا ہے مگر اس کے باوجود ان سب نے میری بہت حوصلہ افزائی کی جس کے لئے شاید میں‌شکریہ بھی ادا نہیں‌کر سکتی ۔۔۔بہت بہت شکریہ ۔

Saturday, March 28, 2009

قصہ کچھ ہماری فطرت ثانیہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی ہم کلینک نماڈربے سے ڈاکٹر صاحب کے سلیقہ اور قابلیت کا اندازہ لگانے کی کوشش میں ہی تھے کہ وہ تشریف لے آئے ۔۔۔۔چند منٹوں میں انہوں نے ہمارے ساتھ آئے ہوئے اصلی مریض کی خبر گیری کی ۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد ہم نے یوں ہی ان سے سیکنڈ اوپینئن لینے کی خاطر اپنا منہ کھول دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگے ہوںووں تو آپ کے خیال میں کون سا دانت نکالنا چاہیے ۔۔۔ہمیں ہنسی آگئی ۔۔۔۔مگر ڈاکٹر صاحب بدستور سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔یہ تو آپ بتائیں گے ناں مجھے کیا پتہ ،ہم نے مزید ہنسنے کو پروگرام ملتوی کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔۔۔نہیں آپ خود بھی سیانی ہیں بتائیں ۔۔۔۔۔ہمیں پھر ہنسی آگئی اور پتہ نہیں سیانی پر آئی یا پھر بھی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن پھر ڈاکٹر صاحب کا سنجیدہ منہ دیکھا کر ہم نے بھی سنجیدہ ہونے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔وہ تو ٹھیک ہے مگر ڈاکٹر تو آپ ہیں آپ بتائیں ۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے ہمارا ہاتھ یونہی ایک دانت پر عادتاً جا ٹھرا ۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب فورا بولے ہاں یہی دانت نکالناہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب پلٹے اپنےپانی میں کھولتے ہوئے اوزاروں کو الٹ پلٹ کر نے لگے ہم انتظار کرنے لگے کہ وہ کوئی مشورہ دیں۔۔۔۔۔وہ دوبارہ ہماری طرف متوجہ ہوئے کسی اوزار کے ساتھ غالبا ہمارےدانتوں کا تفصیلی معاءنہ کرنا چاہ رہے تھے سو ہم نے منہ پورا کھول دیا ۔۔۔یونہی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم نے تھوڑی سی گردن اٹھانا چاہی کہ معلوم تو ہو کیا ہے ان کےہاتھ میں ۔۔۔۔لیکن پھرسر کرسی کی ٹیک سے لگا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو بھلا ہوان کا کہنے لگے بس کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہوگا مطلب کچھ ہوگا ہم نے فورا جملے کو پروسیس کیا اور گردن کو ایک جھٹکے سے اٹھا کر دیکھا ارے اس آلے کے سرے پر تو سوئی بھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔آپ دانت ابھی نکالنے لگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے یہ سوال کہاں ابھرا تھا ہماری زبان سے تو صرف پھسلا ہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں انجکشن ابھی لگائیں گے دانت اگلے مہینے نکالیں گے ۔۔۔۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے تیئں بڑا ظنز کیا مگر ہم اچھل کر کرسی سے اتر گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ہمیں دانت نہیں نکلوانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ہم وہاں مزید نہیں ٹھہرے ۔۔۔۔۔۔۔۔
طبقاتی فرق پر مشتمل ہمارا یہ معاشرہ بھی عجیب ہی ہے پہلے تو اچھے ڈاکٹر کو افورڈ کرنا ہی آپ کی مالی حیثیت کا آئنہ دار تھا پھر جب سے تعلیم کے شعبےپر بھی کر پشن کے شیداءیوں کی نظر عنایت بڑھی تو اب تو حال یہ ہے کہ ڈاکٹر بننا بھی آپ کے اسٹیٹس کو ظاہر کرتا ہے ۔ابھی تک تو ذہن انہی باتوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیںتھا کہ کس طرح لوگ دھڑلےسے نقل کرتے سفارش کرواتے ،پیپرز میں نمبر لگواتے ہیں ۔۔۔۔لیکن اب تویہ سب باتیں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ اب انہیں چھپانے یا ان پر شرمندہ ہونے کی بجائے بڑے فخر سے دوستوں کی محفل میں بیان کیا جاتا ہے ۔۔۔۔اور سننے والے سب بڑے رشک سے اس شخص کو دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جس کی کرپشن کی داستان جتنی شرمناک ہوگی وہ اتنا ہی معزز سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بااثر خیال کیا جاتا ہے اسکی دوستی پر فخر کیا جاتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تعلیم کوطبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کے لئے بری طرح سے استعمال کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے لئے ہر ناجائز حربہ استعمال کیاجارہا ۔۔۔۔۔فرح کیس یا پھر پچھلے دنوں منظر عام پرآنے والی سکول پر چھاپے کی کارواءی تو ہماری تعلیمی دیگ کے محض چند دانے ہیں جن سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس سسٹم میں طلباء کو جو واحد سپرٹ ملتی ہے وہ ہے نمبروں کا حصول اور اس کے لءے ہر ناجائز ذریعہ استعمال کرنا ۔۔۔۔۔ہم نے ایک محترم استاد کو نقل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے یہاں تک فرماتے سنا کہ جیسے زندگی بچانے کے لئے ناجائز چیز کا استعمال جاز ہے اسی طرح اس وقت یہ نقل ہماری ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساءنس ٹیکنالوجی اور ایجادات کی کمی کا تو کیا رونا ہم تو وہ بھی نہیں ہیں جو ہم بظاہر نظر آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تو اپنا فرسودہ نصاب بھی بغیر کسی کرپشن کے پاس کر نے کے روادار نہیں آخر ہم جا کہاں رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری آنکھوں میں ایوانوں میں بیٹھے کرپٹ لوگ تو چند دن بعد کھٹکنے لگتے ہیں اور ہم تحریکوں کے ذریعے پھر سے انہی کی آل اولاد کو لا بیٹھاتے ہیں مگر ہم اس کرپشن کو تو بھول ہی گئے ہیں جو ہم میں سے ہر شخص کی فطرت ثانیہ بنتی جارہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, February 17, 2009

محبت کے سوا

محبت کے سوا
کم تو ہم پہلے بھی کچھ نہ تھے مگر روشن خیالی کے آٹھ سالہ دور نے تو ہمارے اقدار کی جڑیں تک ہلا کر رکھ دیں‌ہیں‌۔۔۔۔۔معاشرے کی درس گاہ میں‌تعلیم پانے والے نوجوانوں‌کے لیے محبت ایک لازمی مضمون کی حثیت اختیار کر گیا ہے پہلے یہ آپشنل ہو ا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔یہ مضمون آپ اپنی عمدہ کمیونیکیشن سکلز کی بناءپر ہی لے پاتے تھے ۔۔۔۔۔مگر خاص طور پر جب سے سبھی کے ہاتھوں میں‌الیکٹرانک کبوتر آگئے محبت کرنا بھی لازمی سا ہی ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ترغیب دینے کو ان کبوتروں کے مالک ہیں‌۔۔۔۔۔جو ایک سے ایک نیا آئیڈیا اپنی پروڈکس کی پبلیسٹی کے ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کو مفت دیتے ہیں‌۔۔۔۔
محبت کی دنیا میں‌بڑے بڑے نام گزرے ہیں‌۔۔۔۔مثلآ‌لیلی مجنوں‌،سسی پنوں۔۔۔۔حیرت یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ نام یہ مقام کیسے حاصل کر لیا ۔۔۔۔۔جابجا دیواروںپر نظر آنے والے لازوال کردار ایف اینڈ جے ،یا کے اینڈ کے ۔۔۔آخر ان کے جذبے میں‌کہاں‌کمی ہے جو وہ یہ نام اور مقام نا حاصل کر پائے جو تاریخ‌کے مختلف کرداروں کے حصے میں آئی ۔۔۔۔۔۔تو سمجھ کچھ یہ آتی ہے کہ تاریخ‌کے کردار مثلآ لیلی مجنوں‌۔۔سسی پنوں‌ وغیرہ نے جو محبت کی وہ ان کی اپنی اختراع یا ان کی اپنی انویشن تھی ۔انہیں‌آءیڈیازدینے کے لیے مختلف موبائل کمپنیاں نہیں‌تھیں سو چیز جتنی اوریجنل ہو گی اتنی ہی مقبولیت حاصل کر ے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کرداروں‌کے جذبے کی واقعی داد دینا پڑے گی کہ اس دور میں جب نام بنانے کے لیےدور جدید کی مختلف ٹیکنالوجیزکی فیلڈز نہیں‌تھیں‌ تو انہوں‌نے محبت کر کے ہی نام بنا لیا ۔۔۔۔بڑٰ ی بات ہے جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت کرنے والے کرداروں‌کے حوالے سے بات کی جائے تو پہلا نام لیلی کا ذہن میں آتا ہے ۔۔۔سنا ہے کہ لیلی کالی تھی ۔۔۔۔۔۔یہ بھی سنا ہے کہ اسکا ایک کتا بھی تھا ۔۔۔۔شاید لیلی کا کتا بھی کالا ہی تھا ۔۔۔۔تاریخ‌اس بارے میں شاید چپ ہے اور ایک چپ سو سکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرہاد صا حب کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ‌نہر کھودتے کھودتے تیشہ اپنے ہی سر پر دے مارا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ فرہاد صاحب پاکستانی مرد نہیں‌تھے ورنہ ضرور یہ تیشہ شیریں‌کے سر پہ دے مارتے ۔۔۔۔۔
اب جناب اس نئے کردار سے ملیے ان کی اماں‌کسی کے گھر رشتہ لیکر گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بہن آپ کا بیٹا کرتا کیا ہے ؟
خیر سے لڑکیوں‌میں موبائل کے سمز تحفتا تقسیم کرتا ہے بدلے میں‌وہ اسے اپنے باپ بھائی کے پیسوں‌سے ایزی لوڈ کروادیتی ہیں خٰیر سے بڑا ہی۔۔۔
نہیں‌میرا مطلب تھا کہ کام کیا کرتا ہے ؟
اے لو کام کریں‌اس کے دشمن
تو پھر میری بیٹی کو کھلائے گا کہاں‌سے
تو تمہاری بیٹی کھائے گی بھی۔۔۔۔چل اٹھ سکینہ
اور پہلے سے بیزار بیٹھی سکینہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہو تی ہے۔۔۔۔۔۔
ویسے تو شدید گرمی میں‌پکتے ہوئے تارکول کے پاس کھڑا مزدور بھی محبت کا ہی روپ ہے اور یہ محبت ہے اس کی اپنے کام سے اپنے اہل خانہ سے اور حلال رزق سے ۔۔۔۔۔چلچلاتی دھوپ میں عین سڑک کے بیچ پتھر کوٹتی عورت بھی محبت کا روپ ہے یہ محبت ہے اسکی اپنی اولاد سے اور حلال رزق سے ۔۔۔مگر جناب یہ محبتیں‌تو آپ کو جا بجا مل جائیں‌گی بات کرتے ہیں‌اس محبت کی جو انمول ہے ۔۔۔۔۔ذرا تصور کیجیے ۔۔۔۔۔
پلیٹ فارم پر گاڑی تیار ہے ۔۔۔پریا اپنے خاندان سمیت پلیٹ فارم پر کھڑی ہے ۔۔۔راہول گاڑی میں‌سوار ہو چکا ہے ۔۔۔پریاآآآآآآ‌۔۔۔۔راہووووول ۔۔۔پریا کو اسکا باپ پکڑے ہوئے ہے گاڑی آہستہ آہستہ چلنے لگتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔جا بیٹٰی اب سوار ہو جا ۔۔۔۔۔اچا نک ہی پریا کے باپ کو رحم آجاتا ہے ۔۔۔اور پریا بھاگتی ہوئی راہول کے ڈبے تک جاتی ہے اور پھر آپ آنکھ جھپکتے ہیں‌تو وہ گاڑٰی میں‌ سوار ہو چکی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
اب ذرا ایک اور سین ملاحظہ ہو ۔۔۔اب کی بار راہول پلیٹ‌فارم پر کھڑا ہے ۔۔۔۔۔پریا اپنے خاندان کے ساتھ گاڑی میں‌سوار ہو چکی ہے( نہ جانے یہ پریا کا خآندان اسکے ساتھ ہی کیوں‌ہوتا ہے ہر جگہ ۔۔۔۔گاڑی رفتار پکڑ‌چکی ہے ۔۔۔بے فکر رہیے اس بار ہمارا ہیرو پلیٹ فارم پر ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔راہوووووول ۔۔۔۔۔۔پریاآآآآآآآآآآآآآآآ‌۔۔۔۔۔۔۔راہووول بہت تیز دوڑتا ہے جو کہ سلو موشن میں‌دکھائی جا تی ہے اگر رہول کی اصل رفتا ر دکھائی جائے تو آپ کو روشنی کی رفتار سے بھاگتا ہوا راہووول نظر ہی نہیں آ ئے گا ۔۔۔۔۔صرف آپ کی سہولت کی خاطر ایسا اہتمام کیا جاتا ہے ۔۔۔۔پھر راہول بھاگتے بھاگتے پریا کے ڈبے تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔دونوں‌ہاتھوں‌سے دروازے کے دونوں‌ اطراف کےہینڈل پکڑنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک ہینڈل ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے ۔۔۔پریا ہاتھ آگے بڑھا دیتی ہے ۔۔۔۔۔اصولا تو پریا کو بھی دھڑام سے نیچے آجاناچاہیے ۔۔۔مگر آپ آنکھ چھپکتے ہیں‌تو راہول ڈبے میں‌سوار ہو چکا ہے اور ڈبے میں‌سوار ہونا ہی راہوووووول کا اصل مقصد حیات تھا ۔۔۔۔۔۔لہذا فلم ختم ہو جاتی ہے ۔۔۔۔آپ نے ایویں‌ تین گھنٹے راہوووول کے پیچھے برباد کر دیے ذرا سی محنت خود کر تے تو آپ بھی کسی نہ کسی گاڑی میں‌سوار ہو ہی جاتے ۔۔۔۔۔خیر آپ سوچیں‌گے کے اس میں‌انمول کیا تھا۔۔۔تو جناب تیسری دنیا کے جن ممالک میں‌ریلوے پلیٹ فارم کا یہ حال ہو کہ دروازے پر جگہ نہ ہونے کے باعث لوگ اپنے بچے کھڑکیوں‌کے ذریعے سوار کراتے ہوں‌وہاں‌اگر ایسی رش سے پاک محبت مل جائے تو وہ یقینا انمول ہی ہو گی نا ۔۔۔۔۔
محبت کے لازوال کردار ہیر رانجھا کے بارے میں ہم ایک لمبا عرصہ بےخبری کے ہی عالم میں‌رہے وہ تو ایک بار ٹی وی پر کچھ آرہا تھا جواس وقت ہماری عقل سلیم سے کافی بالا تھا ہماری چھوٹی خالہ جانی نے بتایا کہ وارث شاہ کی ہیر آرہی ہے ۔۔۔۔ہمارے لیے یہ تینوں‌لفظ ہی نئے تھے کیا آرہی ہے؟ہم نے معصومیت سے پوچھا تو خالہ جانی نے حیرت سے ہمیں‌دیکھا اور پوچھنے لگیں‌تمہیں‌ہیر رانجھا کا نہیں پتہ ؟ نہیں۔۔۔وہ ہمارے چہرے کوغؤر سے دیکھنے لگیں‌ پھر جانے کیوں‌انہیں یقین آگیا کہ واقعی ہمیں‌ نہیں پتا تو انہوں نے ہمیں اس لازوال داستان کےمتعلق کچھ بتایا بس پھر اس کچھ سے آگے جاننے کی ہم نے خود ہی کچھ کوشش نہیں کی کیونکہ ہمارے خیا ل میں‌
اور بھی غم ہیں‌زمانے میں‌ محبت کے سوا

Friday, January 30, 2009

عجائب خانہ

یہ تہذیب زیادہ پرانی نہیں بس آج سے ساڑھے تین سو سال پرانی ہے۔۔۔۔عجائب گھر میں‌سجے عجائبات دیکھتے ہوئے ایک آّواز ابھری ۔۔۔۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملک ہوا کرتے تھے ۔۔ ملک ؟۔ہاں ملک ۔۔۔یہ ورچوئل سوسائیٹیز تب ابھی ارتقائی مراحل میں تھیں۔۔۔لوگ زمین کے اس ٹکڑے کے حوالے سے جانے جاتے تھے جہاں‌ ان کی پیدائش ہوتی یا جہاں‌وہ رہ رہے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔طرز زندگی کے بارے میں‌نظریات کی بنا پر متفق ہونے والے انسان تب یوں یکجا نہیں‌تھے ۔۔۔۔ایک ہی ملک میں‌کئی نظریات کے لوگ بستے تھے۔۔۔۔۔مختلف طرز زندگی رہن سہن اور عقائد کے فرق کے باوجود وہ زمین کے ایک خطے پر یکجا ہوجانے کی بنا پر زمین پر بسنے والے باقی لوگوں سے متعصب رویہ رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ایسے میں کچھ ممالک نظریات کی بنا پر بھی بنے تھے مگر ان ممالک میں‌بسنے والے مختلف گروہوں میں‌نظریاتی اختلاف ان ممالک کے کمزور ہونے کی وجہ بن جاتا۔۔۔۔اور طاقتور ممالک انہیں اپنا غلام بنالیتے۔۔۔۔۔۔
تو پھر یہ سوسائیٹیز کیسے بنیںِ۔۔۔۔
شروع میں لین دین میل ملاقاتیں‌ اس زمانے کے جدید ترین نظام "انٹرنیٹ " پر ہونے لگیں ۔۔۔۔فیس ٹو فیس باہمی رابطے کم سے کم ہو گئے۔۔۔۔۔پھردنیا کے مختلف خطوں میں طرز زندگی سے متعلق ایک جیسا نظریہ رکھنے والے لوگ جدید نیٹ‌ ورکس کے ذریعے اکھٹے ہونا شروع ہوئے ۔۔۔۔اور یوں مختلف سوسائیٹٰز بنتی گئیں۔۔۔۔افراد کا جو گروہ طرز زندگی کے بارے میں‌بہترین نظریات رکھتا تھا ۔۔۔۔اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرتا تھا بس وہی آج سپر پاور ہے۔۔۔۔۔۔۔
پر تجسس نگاہیں‌لیزر شیلڈ‌میں‌سجی مختلف اشیا کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔موبائل سیٹ ،ڈٰیجیٹٌل کیمرے، کمپیوٹر اور بہت سی ایسی چیزیں تاریخ کو جاننے کے شوق کومزید ہوا دے رہی تھیں‌۔۔۔۔۔
یہ نقشہ کس چیز کا ہے؟‌
یہ غالبآ کسی قلعے کا ہے شاید کسی مذہبی قلعے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, January 16, 2009

کاسمیٹکس خوشیوں میں دلہن کہیں کھوگئی

زمانہ تھا کبھی وہ بھی جب دلہن کا گھونگھٹ ہوا کرتا تھا۔۔۔۔۔دولہا خود کو خوش قسمت سمجھتا تھا کہ یہ گھونگھٹ‌ اسے ہی اٹھانا ہے۔۔۔۔بہت مسرور۔۔۔۔مگر اب یہ خوش قسمتی سب سے پہلے جس شخص کے حصے میں آتی ہے وہ ہے فوٹوگرافر۔۔جی ہاں پروفیشنل فوٹو گرافر۔۔۔۔
دلہن پر کم از کم 3سے 6 مزدوروں‌ کی مہینے بھر کی کمائی کے برابر سنگھار سے سب سے پہلے محظوظ ہونے کی سعادت کے لیے فوٹو گرافر پارلر میں‌ہی موجود ہوتا ہے۔۔۔۔
دوسری جانب بارات دلہن کے ہال پہنچ کر دلہن کا انتظار کررہی ہے۔۔۔۔۔ہال میں‌چاہے خواتین و حضرات کی نشستوں کا الگ الگ انتظام موجود ہو پھر بھی فوٹؤگرافرز،کیمرہ مینز،سروسز والے اور پھر دولہا دلہن کے ساتھ تصویر اتروانے کے خؤاہشمند حضرات " محرموں" میں ہی شمار کرلیے جاتے ہیں۔۔۔۔تاآنکہ ہر لحاظ سے سہولت رہے ۔۔۔۔۔۔اور یہ سہولت بوقت ضرورت کام بھی آسکے۔۔۔۔ویسے پیچھے نہ جانے کونسے شہزادے بچ جاتے ہیں۔
دلہن کا انتظارطویل ہوتا جاتا ہے۔۔۔۔بلآخر "دلہن آگئی" دلہن آگئی" کا شور مچتا ہے اور بارات دلہن کے استقبال کے لیے کھڑی ہوجاتی ہے۔۔۔۔مگر جناب ابھی انتظار کی گھڑیاں ختم نہیں ہوئیں۔۔۔ہال کے داخلی دروازے پر ایک ہجوم ہے۔۔دلہن کی جانب سے فوٹوگرافر،دلہا کی جانب سے فوٹوگرافر،دلہن کی جانب سے مووی کیمرہ مین ،دلہا کی جانب سے مووی کیمرہ مین،پھر ان کے اسسٹنٹس اور ان کے کہیں پیچھے کھڑی بے بس بارات ایڑیاں اچکا اچکا کر دلہن کے دیدار کی ناکام کوشش میں مصروف۔۔۔کوئی بیس منٹ دلہن کی ہال میں انٹری کی کوریج کی جاتی ہے اور بلآخر کیمرہ مینز کی ٹٰیم کچھ دیر کو سائیڈ‌ پر ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔
دلہن کا اعتماد اور اسکی کیمرہ مینز خاص کر اپنی طرف والی فوٹوگرافر سے انڈر سٹٰنڈنگ دیدنی ہو تی ہے کہ یہ ہی وہ شخص ہے جو سنگھار کے بعد سب سے پہلے اسکے دیدار کا حقدار ٹہرا تھا۔۔۔۔۔۔۔
دلہن کی آمد پر دلہن کی سہیلیوں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔۔۔۔یار!‌ یہ ہم کسی اور ہال میں تو نہیں آگئے۔۔۔۔کیوں کیا ہوا! بھوک سے نڈھال ایک مری ہوئی آواز پوچھتی ہے۔۔۔۔یار یہ اپنی پنکی تو نہیں ہے۔۔۔۔وہی ہوگی۔۔۔یہ کھانا کب لگے گا میرا تو بھوک سے دم نکل رہا ہے۔۔۔قریب سے گزرتی پنکی کی امی جان کو تصدیق کے لیے پکڑ لیا جاتا ہے۔۔۔۔آنٹی یہ پنکی ہی ہے نا!؟۔۔۔ہاں ہاں بیٹا کیا ہوگیا ہے وہی ہے۔۔۔آنٹی کی کھسیانی آواز آتی ہے۔۔۔خیر سے بہت خوبصورت ہے میری بیٹی بس ذرا ناک کا تھوڑا مسلئہ تھا دیکھا میک اپ سے کیسا سیٹ ہو گیا"جی جناب اور کچھ آپ کی ناک کا بھی مسلئہ تھا وہ بھی اس خرچے سے کافی حد تک سیٹ ہو گیا ہوگا"
میک اپ کی تہوں کے نیچے اپنے کرب چھپائے چہرے۔۔۔۔اپنے حالات سے لڑتے لوگ۔۔۔۔کاسمیٹٰکس فنکشن میں خؤش نظر آنےکی بہترین اداکاری۔۔۔۔۔ان کاسمیٹکس خوشیوں میں دلہن کہیں کھوگئی۔۔۔۔
یہ تو تصویر کا ایک ادھورا رخ ہے اسی تصویر کے اسی رخ کا دوسرا حصہ دیکھیے۔۔۔۔
ہزاروں کا سنگھار۔۔۔۔۔لاکھوں کا جہیز۔۔۔۔لاکھوں کی بری۔۔۔۔ہزاروں کا شادی کے فنکشن کا خرچہ۔۔۔۔۔
ان کے لیے افورڈ‌ کرنا تو حق بجانب بنتا ہے جن کے پاس آمدنی کے" بہترین ذرائع" ًموجود ہیں۔۔۔وہ نہ خرچہ کریں تو انکاپیسہ سرکولیشن میں نہیں آئے گا۔۔۔۔اور داغے جانے کے لیے مہروں کی کوالٹٰی اعلی سے اعلی تر ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔
مگر ہزاروں میں کمانے والے لاکھوں‌کے اس خرچے کوکیسے افورڈ‌کریں اور کیوں افورڈ کریں؟؟۔۔۔۔۔
یہ بھی المیہ ہے کہ جس مقدس رشتے کی خوشی میں اہتمام خوب سے خوب تر کیا جاتا ہے اس کے ٹوٹنے کی شرح بھی معاشرے میں تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
فلرٹس کی بڑھتی ہوئی تعداد شاید اس سے پہلے کبھی اتنی رہی ہو۔۔۔جتنی اس کاسمیٹیکس خوشیوں کے دور میں ہے۔۔۔۔۔
ان کاسمیٹیکس خوشیوں نے سچی خوشیوں کو بہت مہنگا بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, January 9, 2009

قصہ کچھ فنون لطیفہ کا۔۔۔۔۔

یہ قصہ ہے فنون لطیفہ کا اور یہ قصہ ہے ان معصوم ذہنوں کا جوفنون لطیفہ سے متعلق اپنے ذہنوں میں‌اٹھنے والے سوالات کے جوابات کے لیے مذہبی رہنماوں کی طرف دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔
اور پھر اس مسلے پر باقاعدہ ٹاک شوز کا اہتمام بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔جس میں کوئی علامہ صاحب یہ فرمادیتے ہیں کہ ہرگز نہیں‌،رقص کی ممانعت قرآن میں کہیں‌نہیں ۔۔اور معصوم ذہن کہتے ہیں کہ ہاں واقعی عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ ایک لطیف چیز بھلا کیسے حرام ہو سکتی ہے۔۔۔پھر مومسیقی کی محفلوں میں کوئی عورت نما مرد اعضاء کی شاعری یوں کرتا ہے کہ بجائے لطف کے گھن آنے لگتی ہے۔۔۔۔۔
یہی سوالات موسیقی کے بارے میں کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔اور "روشن خیال" ذہنوں کو دین کے قریب رکھنے کے غرض سے فرمادیا جاتا ہے کہ بس کچھ "خاص قسم کی موسییقی جائز نہیں ورنہ موسیقی کی ممانعت تو ہرگز نہیں۔۔۔پھر معصوم ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ خاص‌ قسم کونسی ہے۔۔۔۔۔۔ایک عام سا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جس طرح‌ہم معصوم لوگ "مولانا صاحب پچھلے سال ایک نماز میں‌سجدہ کرنا بھول گیا تھا ۔۔اسے اب ادا کروں تو نماز ہو جائے گی؟"جیسے سوالات کے لیے علامہ حضرات سے رجوع میں‌رہتے ہیں ۔۔۔اسی طرح رقص وموسیقی کے بارے میں ان ارشادات کے بعد آئندہ انہی سے رجوع کے محتاج ٹہریں گے۔۔علامہ صاحب فرمایے گا کہ ابرار کی نئ البم جائز ہے اور علامہ صاحب فرمائیں گے ہاں ایک گانے "پریتو " کے علاوہ باقی البم جائز ہے۔۔۔
پھر مختلف گلوکاروں کے صحیح‌ غٌلط ہونے کے بارے میں بھی ہم حسب عادت اور حسب روایت فرقے بنا ڈالیں گے۔۔۔۔۔پھر میرا ارادہ تو اس فرقے میں شمولیت کا ہے جس میں نیرہ نور کو سنناجائز ٹہرے۔۔۔۔
کچھ ایسی ہی صورتحال مصوری کے ساتھ رہی۔۔۔پہلے بتا دیا گیا کہ مصوری جائز ہے مگر صرف بےجان اشیا کی۔۔۔ جاندار اشیا کی تصویر کشی حرام ٹہری۔۔۔اس طرح درخت،پھول پھل کی مصوری اسلامی دائرے میں‌رہی۔۔۔سائنس نے ترقی کرکے بتا دیا کہ درخت،پھول پھل بھی جاندار ہوتے ہیں۔۔۔معصوم ذہن ایک بار پھر سوال بن کر رہ گئے۔۔۔۔۔
بات کو کسی تعصب کے بغیر سمجھنا ہو تو بات بہت سادہ سی ہے۔۔۔۔
بہت واضح الفاظ‌ میں بتا دیا گیا کہ حدود اللہ کیا ہیں اور پھر یہ بھی فرمادیا گیا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان کے قریب بھی مت جاو۔۔۔۔۔
یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ انسانی خواہشات بے لگام جانور کی سی ہیں۔۔۔جنہیں لگام نہ ڈالی جائے تو انہیں نہیں پتہ ہو تا کہ ان کی حدود کیا ہیں۔۔۔۔۔اور چراگاہ کے قریب آئے بے لگام جانور کو اس کے اندر داخل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔۔۔۔
یہ بات سمجھنا بھی اہم ہے کہ ہوسکتا ہے کہ شراب نوشی کی کسی محٍفل میں بیٹھنے کی واضح الفاظ میں ممانعت نہ کی گئی ہو مگر چونکہ شراب کو حرام ٹہرایا گیا ۔۔۔ایسی کسی محٍفل میں اٹھنا بیٹھنا انسان کو اس طرف مائل کرسکتا ہے۔۔۔سو یہ عمل حدود اللہ کے قریب جانے کے مترادف ہوگا۔۔۔۔۔
یہی بات رقص و موسیقی کہ حوالے سے بھی ہے۔۔۔ہوسکتا ہے کہ ان کی ممانعت واضح الفاظ میں‌نہ ہو مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ انسانی جذبات کو بے لگام کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔سو ان کو ڈھٹائی کے ساتھ اپنی زندگیوں میں شامل رکھنا حدود اللہ کے قریب جانے کے مترادف ہے۔۔۔۔
ایک عام سا ذہن یہی سوچ پایا ۔۔۔آپ کیا سوچتے ہیں اس بارے میں۔؛۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, January 6, 2009

کبوتروں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے

سردیوں کی نرم مزاج دھوپ میں چھت پر ٹہلتے ہوئے اچانک پروں‌کی پھڑ‌پھڑاہٹ نے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔پلٹ کر دیکھاتو خوبصورت دھلے ہوئے آسمان پر کبوتر اڑان بھر رہے تھے۔۔۔۔ایک لمحےکو ان کی اڑان پر بڑا رشک آیا۔۔۔مگر اگلے ہی لمحے نظران کے پنجرے پر پڑی۔۔۔۔بھلا ان کبوتروں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے۔۔۔مالک نے اپنی قید میں لیتے ہی پر کاٹ دیے۔۔۔پھر دانے دنکے کا محتاج بنادیا۔۔۔۔۔
ایک عرصہ اپنی قید سے مانوسیت کا یقین ہوجانے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔جو آزادی دی وہ پھرآزادی ہی نہ رہی۔۔۔۔۔۔پلٹ کر اسی قید میں آجانے کا گہرا خیال ننھے دماغوں پر نقش ہوچکا۔۔۔۔۔بار بار پر کاٹ ڈالنے کا عمل۔۔۔۔
پھر بلی کو دیکھ کر کبوتروں کا آنکھیں‌ بند کرلینا بھی ذہن میں آنے لگا۔۔۔۔۔یہ بھی مالک کی مرضی ہی ٹہری کہ وہ پنجرہ کیسا بناتا ہے۔۔۔اگر پنجرہ مضبوط ۔۔۔تو بلی سے بچت۔۔۔اور اگر پنجرہ کمزور رکھا گیا تو پھر کبوتر تو سوائے آنکھیں بند کرلینے کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔۔۔۔۔۔۔
یک دم ہی ان کی وقتی آزادی بے معنی لگنے لگی۔۔۔ان کی اس کھوکھلی اڑان سے خوف آنے لگا۔۔۔۔ان کے شکستہ حال پنجرے کو دیکھ کر ان پر ترس آنے لگا۔۔۔۔
کبوتروں کا پنجرہ۔۔۔۔۔ان کی قید۔۔۔۔۔۔ انکا قید سے لگاو۔۔۔اوران کا طرز زندگی۔۔۔کسی قوم سے مشابہ لگا۔۔۔۔۔۔۔مگر کس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باوجود کوشش کے یہ یاد نہ آسکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, January 2, 2009

گناہ کا لطف

دو غلط فہمیاں‌ نہ جانے ہمیں‌کہاں سے کہاں‌لے جائیں ۔۔۔منزل کے بہت قریب ہو تے ہوئے بھی ہم کہیں‌بہت دور ہی نہ ہوجائیں ۔۔۔پہلی خوش فہمی جس میں‌ہم میں‌سے ایک واضح اکثریت مبتلا ہے کہ ہم وہ امت ہیں کہ ہماری بخشش ہو چکی ہم اپنے کردہ گناہوں کے لیے بہت تھوڑے عرصے کےلیے دوزخ میں جائیں‌گے اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت ہمارا نصیب ٹھرے گی۔۔۔۔افسوس ہمارا دھیان کبھی اس امت کی طرف نہیں‌گیا جو ہم سے پہلے ایسے ہی دعوے کی مرتکب ہوئی اور قرآن میں ان سے بیزاری اور عذاب کی وعید کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔
ذرا سوچیے تو ایک لمحے کے لیے فرض ‌کیجیے کہ آپ پچھلی امت کا ایک فرد ہیں اور میں‌اس امت میں سے ہوں۔۔۔۔
آپ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں‌اور میں۔۔۔۔گناہوں‌کے بارے میں‌لاپرواہی کا شکار ہوں کیونکہ میری تو بہرحال بخشش ہو ہی جانی ہے۔۔۔۔۔
اب ہو تا یہ ہے کہ ہم میدان حشر میں‌کھڑے ہیں‌۔۔۔آج یوم حساب ہے۔۔۔یہی وہ دن ہے جب ہر کسی کو پورا پورا انصاف ملے گا۔۔۔مگر یہ کیا! جب آپ کے اعمال کو تولا گیا تو کچھ گناہ زیادہ ہی ہوگئے۔۔اور آپ دوزخ میں۔۔میں چونکہ ایک خاص امت سے تھی لہذا کچھ دیر دوزخ‌اور پھر جنت۔۔۔۔۔
کیا انصاف کے دن اس نا انصافی پر آپ احتجاج نہیں‌ کریں گے۔۔۔بھلا جو عدالت لگی ہی انصاف کے لیے،وہاں سے ایسی بےانصافی کی آس ہم کیوں لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔
دوسری خوش فہمی جو ہم نے اپنی کم فہمی کی بناء پر خود پر طاری کی ہوئی ہے،اور ہر دور میں‌نوجوان نسل اسکا خاص شکار رہی ہے وہ یہ کہ "گناہ کا کوئی منفی اثر لیے بغیر اسکا لطف اٹھایا جاسکتا ہے"حیرت ہے بھئی!
تھوڑا پیچھے جائیے بلکہ کچھ زیادہ پیچھے جائیے تو وہ دور بھی تھا جب متوسط گھرانوں اور خاص کر مذہبی گھرانوں میں‌ریڈیو کے خلاف مزاحمت رہی۔۔۔"گناہ کا کوئی منفی اثر لیے بغیر اسکا لطف اٹھانے" کے نظریے کے پیروکار نوجوانوں نے بغاوت کی۔۔۔۔اور آہستہ آہستہ وہ مزاحمت دم توڑ گئی۔پھر یہی کہانی ٹٰی وی ۔وی سی آر۔ڈش اور پھر کیبل کی آمد پر دہرائی گئی۔۔۔۔۔۔دقیانوسی لوگوں کوبھی آہستہ آہستہ ان چیزوں کے فوائد گنوا کر قائل کر لیا گیا۔۔۔۔۔۔
مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہو تی ۔۔۔کہانی تو یہاں‌سے شروع ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
مغرب میں "پاور فل افیکٹ آف میڈ یا" پر ہونے والی ریسرچز کے نتائج سے بے خبر ہم "مشرقی"لوگ گناہ کا لطف اٹھاتے رہے اسکا کوئی منفی اثر لیے بغیر۔۔۔۔
ان کی ریسرچز کے نتائج "بند ڈبے سے باہر آنے لگے اور ہمارانظریہ ڈبے میں بند۔۔۔۔
ڈبے پر نظر آنے والے بے لگام کردار ہمارے ارد گرد بھی چلنے پھرنے لگ گئے۔۔۔ان کی "باہم گفتگو کا مسلئہ "چھوٹی ڈبیا"نے حل کردیا۔۔۔۔۔۔
اب ذرا ان معاشروں پر ایک نگاہ ڈالیے جہاں اس نظریے کے" پیروکار " اپنے معاشرے کو اس انتہا پر لے گئے ۔۔۔کہ وہاں لوگ اپنی ذات اور شناخت کے بارے میں‌خود ایک سوال بن کر رہ گئے۔۔۔۔
ذرا سوچیے کہ محض" گناہ کے لطف "کی ہم اتنی بڑی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ہم اسی رفتار سے چلتے رہے تو ایک دہائی سے بھی کم کا عرصہ رہ جائے گا۔۔۔اپنی ذات کے بارے میں ایک سوالیہ نشان بننے میں۔۔۔۔۔۔
اب کیا کیا جائے۔۔۔۔؟؟؟‌کیا ہم اپنے ٹی وی ،پلئیرز وغیرہ گلیوں میں لا کر توڑ ڈالیں۔۔۔۔اور دنیا کے سامنے خود کو ایک تماشا بنا ڈالیں۔۔ہر گز نہیں۔۔۔ہمیں‌پہلی اور آخری تبدیلی اپنی سوچ میں لانا ہو گی۔۔۔۔۔
گناہ کو گناہ سمجھ کر کیجیے۔۔۔ اس کے بارے دلائل اکھٹے کرنے کی کوشش کی بجائے ۔۔۔۔۔۔یہ طرز فکر آپ کو ایک نہ ایک دن گناہ سے بیزاری پر ضرور مائل کر دے گا۔۔۔۔۔