Thursday, March 25, 2010

بے وقوف

دن بھر کا تھکا ہارا بے وقوف ابھی آکر بیٹھا ہی تھا ،تھکاوٹ کے احساس کو ختم کرنے کے لئے اس نے اپنے سامنے کی کھڑکی کے پٹ کھول لئے ،یہ کھڑکی ایک کیفے میں کھلتی ہے ۔۔۔
کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت آنکھوں میں کاجل بھرا ہوا ۔۔۔کالی زلفیں بکھرائے اندر داخل ہوئی ۔۔اس کے ہمراہ ایک آدمی بھی تھا ۔۔دونوں یوں کیفے کے میز پر بیٹھ گئے کہ ان کے رخ بے وقوف کی طرف تھے ۔۔۔وہ انہیں واضح طور پر دیکھ سکتا تھا ۔۔۔
عورت کا تعلق معاشرے کا اس طبقے سے تھا جو ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے تھے ۔۔۔چہرے پر بے نیازی ۔۔بے پروائی ۔۔بے وقوف کو یوں لگا جیسے یہ عورت اس کے تمام مسائل کی وجہ ہے اس کی وجہ سے ہی وہ تمام تر مسائل کا شکار ہے ۔۔یہ ہی ہے جو اس کی دولت پر ڈاکا ڈالے بیٹھی ہے ۔۔گفتگو کا آغاز ہوتا ہے ،مرد کے چہرے پر گہری سنجیدگی لہجے میں کاٹ ،طنز اور ''چھبتے ہوئے سوالات'' کی بوچھاڑ ۔۔۔۔عورت ہر سوال کا جواب بہت اطمینان اور لاپروائی سے دے رہی تھی ۔۔لاکھوں روپے کے اخراجات کا ذکر ہورہا تھا ،76سالہ شخص کے پانچ چھ وزارتیں ایک ساتھ سنبھالنے کا ذکر ہورہا تھا ۔۔۔مگر بے وقوف کچھ نہیں سن رہا تھا ۔۔۔وہ بہت پر جوش تھا ۔۔۔مرد کے لہجے کی بے رخی ۔۔۔طنز ،کاٹ اور گستاخ لہجہ ۔۔۔ وہ نہایت سخت اور ٹھوس لہجے میں ان مسائل کا ذکر کر رہا جو واقعی بے وقوف کے مسائل تھے ۔۔۔جن سے بے وقوف کو روز دوچار ہونا پڑتا تھا ۔۔۔اور جن مسائل نے اس کی ہنسی ،اس کا سکون چین ،اطمینان سب کچھ اس سے چھین لیا تھا ۔۔۔دن رات کی ایک مسلسل مشقت تھی جس میں وہ پس رہا تھا ۔۔۔اس کی تھکاوٹ اس احساس سے کم ہور ہی تھی کہ کوئی تو ہے جو اس کے درد کو محسوس کر رہا ہے ۔۔وہ مرد کے جارحانہ پن سے بہت متاثر ہوجارہا تھا ۔۔بہت ایکسائیٹڈ۔۔اسے لگا جیسے یہ اس کا مسیحا ہے ۔۔۔اور اب انقلاب اس سے زیادہ دور نہیں ۔۔جہاں ایک طرف وہ مرد کے جارحانہ رویے سے پوری طرح مطمن تھا وہیں عورت کی بے نیازی اس کا خون کھولا رہی تھی ۔۔۔مگر پھر بھی ایک سکون تھا ۔۔۔ایک اطمینان تھا ۔۔جو بے وقوف کو اپنی رگوں میں اترتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔وہ خود کو بہت پرسکون محسوس کرنے لگا ۔۔
پھر اچانک کھڑکی بند کر دی گئی ۔۔۔۔بے وقوف ابھی مزید بھی دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ مرد اس عورت کا گلہ ہی دبا ڈالے ۔۔جو اس کے حالات کے ذمہ داروں میں شامل ہے ۔۔۔لیکن کھڑکی بند کر دی گئی ۔۔۔اتنا بھی بہت ہے ۔۔بے وقوف نے سوچا چلو آج نہیں تو کل انقلاب ضرور آئے گا ۔۔۔یہ سہانا خواب لئے بے وقوف سونے کی تیاری کرنے لگا ۔۔کل ایک مشقت بھرا دن اس کا منتظر تھا ۔۔۔مگر وہ پرجوش اور بہت خوش تھا ۔۔۔وہ کھڑکی بند ہونے کے بعد کا منظر دیکھ ہی نہیں سکا ۔۔۔
کھڑکی کے بند ہونے کے بعدمرد اور عورت اٹھے ۔۔اخلاقاً ہاتھ ملایا۔۔۔گرمجوشی کا مظاہرہ کیاگیا ۔۔ایک نے دوسرے کو چائے کی دعوت دی ۔۔۔مرد کچھ دیر قبل کے رویے کی معافی مانگنے لگا ۔۔آپ کو تو پتہ ہے یہ ہماری روزی ہے ۔۔یہ سب نہ کریں تو ہمیں کون دیکھے ۔۔۔ہاں ہاں میں سمجھ سکتی ہوں ۔۔عورت نے بے نیازی سے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔لیکن ذرا ہاتھ ہولا رکھیں کریں ۔۔ہماری روزی کا بھی خیال رکھا کریں ۔۔جی بہت بہتر آئندہ خیال رکھوں گا ۔۔۔
بے وقوف گہری نیند سو چکا تھا ۔۔اس تک یہ آوازیں نہ پہنچ سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔