Saturday, November 20, 2010

سلیقہ میگ آن لائن اردو میگزین

Wednesday, May 19, 2010

ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن۔۔۔۔۔!

ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن۔۔۔۔۔!
فیس بک پر دوست اپنے اپنے اکاؤنٹ بند کرنے کا ارادہ کر تے نظر آئے ۔۔کوئی شام تک بند کرنے والا تھا اور کوئی کل صبح کی ڈیڈ لائن دئیے بیٹھا تھا ۔۔۔مگر لمبی جدائی چونکہ برداشت نہیں تھی اس لئے اکاؤنٹ بند کرنے کی مدت بھی چند دنوں ہی کی رکھی گئی ۔۔۔ایسے میں نظر ایک جملے پر پڑی وہ تھا کہ ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن۔۔۔۔
اور ذہن میں ان سب کی ایک لمبی فہرست گردش کرنے لگی جو ایک مسلمان برداشت کر سکتا ہے ،اور برداشت کر رہا ہے ۔۔۔ذرا ملاحظہ ہو
ایک مسلمان برداشت کر سکتا ہے کہ وہ کوئی بھی ایسی فلم دیکھے محض انجوائمنٹ کے لئے جس میں نامحرم مرد و عورت پیار محبت کی باتیں کر رہے ہوں ،یقین مانیئے ایک مسلمان پورے تین گھنٹے تک مسلسل یہ برداشت کر سکتا ہے ۔
ایک مسلمان یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اسے جب بھی جہاں بھی چاہے جتنے ہی چھوٹے پیمانے کی کرپشن کرنے کا موقع ملے وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے ،اور یقین مانئیے ایک مسلمان پوری زندگی یہ برداشت کر سکتا ہے ۔
ایک مسلمان یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال میں فرض نماز کی ادائیگیوں پر مسلسل عدم ادائیگی کا کامنٹ لکھا جارہا ہو ،یقین مانیے ایک مسلمان دونوں زندگیوں میں یہ برداشت کر سکتا ہے ۔
ایک لمبی لسٹ ہے ،ذرا سوچیئے جس شخصیت کی توہین ہم برداشت نہیں کر سکتے ،ان کی تعظیم ہم خودکیسے کر رہے ہیں ،
ایک پیام بر کی اس سے زیادہ توہین بھلا کیا ہوگی کہ اس کے لائے ہوئے پیغام کو آپ ایک نظر بھر کی بھی پوری طرح نہ دیکھیں ،اور پھر اس پیغام کی خلاف ورزی میں مصروف ہوجائیں ۔۔۔۔
اور دوسروں کے رد عمل پر یہ رایکشن کے آپ ایک کمیونیکیشن کے ٹول کو چھوڑنے کی بات کرنے لگ جائیں ۔۔جہاں سے ہم خود اپنے پیغام کو بہت موثر انداز میں دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں ۔مگر اگر کوئی کسی بھی میڈیا پر یہ سرچ کرنا چاہے کہ مسلمانوں کا پیغام کیا ہے تو اسے کیا ملے گا ۔۔۔کوئی اپنی فیورٹ فلم شیئر کر رہا ہے ،کوئی فیورٹ سانگز،کوئی رومانوی شاعری ،کوئی تصاویر ،اگر کچھ مذہب کے متعلق ہے تو وہ سی ڈیز کی فروخت ۔۔۔
یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی زمانے میں انگلش کو غیر مذہبی تصور کر لیا گیا تھا ۔۔۔اور پھر سوائے پسماندگی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔۔۔
چلیںفیس بک تو ہے ہی یہودیوں کی انہوں نے یہ ہی کرنا ہے ،خود اپنے میڈیا پر نظر ڈالئے ،کہیں نیم عریاں عورتیں روشن خیالی اور ماڈرن ازم کے نام پر نظر آئیں گی ۔۔۔کہیں ڈراموں میں ایسے رشتے ناطوں کو معمول کے مطابق یوں دکھایا جائے گا گویا وہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ۔۔مذہب کو ایک طرف رکھیئے ۔۔اپنے کلچر ہی کی بات کریں تو ہم میں سے کتنے ہیں جن کی بیٹیاں بہنیں ،اپنے بوائے فرینڈز کے ساتھ یوں ہوٹلنگ میں مصروف ہیں جس طرح ہر ڈرامے کے ہر دوسرے منظر میں دکھایا جاتا ہے ۔۔۔پھر ویک اینڈ پر مزید تفریح کے لئے ''نچ لے '' کا بھی اہتمام ہے ۔۔ہر حد پار کر لی جو رہ گئی وہ کرنے جار ہے ہیں ۔۔۔اس سب پر احتجاج کرنے کتنے لوگوں نے آواز یں بلند کیں ،کتنے لوگ اس سب کا بائیکاٹ کر پائے ۔۔۔مذہبی چینلز کو دیکھ لیجئے تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے ۔۔۔۔
ہم میڈیا کا اتنا پاور فل استعمال اپنے اس مذہب کی ترویج کے لئے جس کے لئے ہم مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ،کیوں نہیں کرتے ،انفرادی سطح پر بھی اگر ہم کسی میڈیم کو استعمال کرتے ہیں تو اس کا حال بھی سب کے سامنے ہے ۔۔۔۔
اگر ہم شریعت اور رسول کی تعلیمات کے خلاف ہونے والی ان سرگرمیوں پر احتجاج نہیں کرتے جو ''مسلمان '' کر رہے ہیں ،تو پھر دوسروں کے ناپاک حرکات پر احتجاج تو محض کھوکھلی جذباتیت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔۔۔
اس تحریر سے یہ اندازہ مت لگا لیجئے گے گا کہ میں فیس بک کا بائیکاٹ کرنے کے حق میں نہیں ۔۔نہیں ایسا ہر گز نہیں وہ تو پی ٹی اے نے وہ ناپاک لنک ہی بند کر دیا ۔۔ورنہ میرا تو پورا ارادہ تھا اس ویک اینڈ پر فیس بک کے مکمل بائیکاٹ کرنے کا پورے تین گھنٹے کے لئے ۔۔۔ ظاہر ہے ویک اینڈ پر تفریح بھی میرا حق ہے سو میں نے اس بائیکاٹ کے عرصے کے دوران فلم دیکھنے کا پروگرام بنا لیا تھا ۔۔۔۔بس انتخاب باقی تھا کونسی دیکھوں ۔۔۔ویسے تو نئی فلم ورثہ بھی ہمارے کلچر ،ثقافت کی بہت عمدہ عکاس لگتی ہے اپنے اشتہاروں سے ہی ۔۔سو یہ چوائس بھی بری نہیں تھی ۔۔۔فیس بک سے اتنی دوری مشکل ضرورہے مگر فلم دیکھتے پتہ ہی نہیں چلے گا ۔۔۔
ویسے بھی ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر ۔۔۔۔۔

Thursday, March 25, 2010

بے وقوف

دن بھر کا تھکا ہارا بے وقوف ابھی آکر بیٹھا ہی تھا ،تھکاوٹ کے احساس کو ختم کرنے کے لئے اس نے اپنے سامنے کی کھڑکی کے پٹ کھول لئے ،یہ کھڑکی ایک کیفے میں کھلتی ہے ۔۔۔
کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت آنکھوں میں کاجل بھرا ہوا ۔۔۔کالی زلفیں بکھرائے اندر داخل ہوئی ۔۔اس کے ہمراہ ایک آدمی بھی تھا ۔۔دونوں یوں کیفے کے میز پر بیٹھ گئے کہ ان کے رخ بے وقوف کی طرف تھے ۔۔۔وہ انہیں واضح طور پر دیکھ سکتا تھا ۔۔۔
عورت کا تعلق معاشرے کا اس طبقے سے تھا جو ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے تھے ۔۔۔چہرے پر بے نیازی ۔۔بے پروائی ۔۔بے وقوف کو یوں لگا جیسے یہ عورت اس کے تمام مسائل کی وجہ ہے اس کی وجہ سے ہی وہ تمام تر مسائل کا شکار ہے ۔۔یہ ہی ہے جو اس کی دولت پر ڈاکا ڈالے بیٹھی ہے ۔۔گفتگو کا آغاز ہوتا ہے ،مرد کے چہرے پر گہری سنجیدگی لہجے میں کاٹ ،طنز اور ''چھبتے ہوئے سوالات'' کی بوچھاڑ ۔۔۔۔عورت ہر سوال کا جواب بہت اطمینان اور لاپروائی سے دے رہی تھی ۔۔لاکھوں روپے کے اخراجات کا ذکر ہورہا تھا ،76سالہ شخص کے پانچ چھ وزارتیں ایک ساتھ سنبھالنے کا ذکر ہورہا تھا ۔۔۔مگر بے وقوف کچھ نہیں سن رہا تھا ۔۔۔وہ بہت پر جوش تھا ۔۔۔مرد کے لہجے کی بے رخی ۔۔۔طنز ،کاٹ اور گستاخ لہجہ ۔۔۔ وہ نہایت سخت اور ٹھوس لہجے میں ان مسائل کا ذکر کر رہا جو واقعی بے وقوف کے مسائل تھے ۔۔۔جن سے بے وقوف کو روز دوچار ہونا پڑتا تھا ۔۔۔اور جن مسائل نے اس کی ہنسی ،اس کا سکون چین ،اطمینان سب کچھ اس سے چھین لیا تھا ۔۔۔دن رات کی ایک مسلسل مشقت تھی جس میں وہ پس رہا تھا ۔۔۔اس کی تھکاوٹ اس احساس سے کم ہور ہی تھی کہ کوئی تو ہے جو اس کے درد کو محسوس کر رہا ہے ۔۔وہ مرد کے جارحانہ پن سے بہت متاثر ہوجارہا تھا ۔۔بہت ایکسائیٹڈ۔۔اسے لگا جیسے یہ اس کا مسیحا ہے ۔۔۔اور اب انقلاب اس سے زیادہ دور نہیں ۔۔جہاں ایک طرف وہ مرد کے جارحانہ رویے سے پوری طرح مطمن تھا وہیں عورت کی بے نیازی اس کا خون کھولا رہی تھی ۔۔۔مگر پھر بھی ایک سکون تھا ۔۔۔ایک اطمینان تھا ۔۔جو بے وقوف کو اپنی رگوں میں اترتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔۔۔وہ خود کو بہت پرسکون محسوس کرنے لگا ۔۔
پھر اچانک کھڑکی بند کر دی گئی ۔۔۔۔بے وقوف ابھی مزید بھی دیکھنا چاہتا تھا ۔۔۔اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ مرد اس عورت کا گلہ ہی دبا ڈالے ۔۔جو اس کے حالات کے ذمہ داروں میں شامل ہے ۔۔۔لیکن کھڑکی بند کر دی گئی ۔۔۔اتنا بھی بہت ہے ۔۔بے وقوف نے سوچا چلو آج نہیں تو کل انقلاب ضرور آئے گا ۔۔۔یہ سہانا خواب لئے بے وقوف سونے کی تیاری کرنے لگا ۔۔کل ایک مشقت بھرا دن اس کا منتظر تھا ۔۔۔مگر وہ پرجوش اور بہت خوش تھا ۔۔۔وہ کھڑکی بند ہونے کے بعد کا منظر دیکھ ہی نہیں سکا ۔۔۔
کھڑکی کے بند ہونے کے بعدمرد اور عورت اٹھے ۔۔اخلاقاً ہاتھ ملایا۔۔۔گرمجوشی کا مظاہرہ کیاگیا ۔۔ایک نے دوسرے کو چائے کی دعوت دی ۔۔۔مرد کچھ دیر قبل کے رویے کی معافی مانگنے لگا ۔۔آپ کو تو پتہ ہے یہ ہماری روزی ہے ۔۔یہ سب نہ کریں تو ہمیں کون دیکھے ۔۔۔ہاں ہاں میں سمجھ سکتی ہوں ۔۔عورت نے بے نیازی سے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔لیکن ذرا ہاتھ ہولا رکھیں کریں ۔۔ہماری روزی کا بھی خیال رکھا کریں ۔۔جی بہت بہتر آئندہ خیال رکھوں گا ۔۔۔
بے وقوف گہری نیند سو چکا تھا ۔۔اس تک یہ آوازیں نہ پہنچ سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, January 26, 2010

خبر ہے کہ

خبر ہے کہ:
ٹوکیو:انسان کے دماغ کا کنٹرول حاصل کرنے کی ٹیکنالوجی ایجاد
ٹوکیو: سائنسدانوں نے انسان کے دماغ پر کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوجی برین مینی پیولیشن Brain Manipulationایجاد کی ہے۔ اس طرح انسان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے۔فی الحال مذکورہ ٹیکنالوجی امریکی خفیہ ادارے مخصوص افراد پر استعمال کررہے ہیں تاکہ ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جا سکیں۔

اگر یہ ٹیکنالوجی کچھ عرصے تک عام ہوگئی تو پھر یقینا لوگوں کو اورخاص طور پر خاص لوگوں کو اپنے دماغ پر پاس ورڈ لگانا پڑے گا ۔اور اگر پاس ورڈ لگانے کا طریقہ آگیا تو پھر ان پاس ورڈ کو ہیک کرنے کا طریقہ بھی نکال لیا جائے گا ۔
تو پھر چلئے کچھ آگے ۔۔۔
خبر ہے کہ :
امریکی صدر کے دماغ کا پاس ورڈ ہیک کر لیا گیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر کے دماغ کا پاس ورڈ ہیک کر لیا گیا ہے ۔دماغ کا پاس ورڈ ہیک ہونے کے فوراً بعد صدر نے ہنگامی بنیادوں پر عوام سے خطاب کیا ۔
اس خطاب کا متن یہ ہے :
بھائی اور بہنو ۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس دماغ کا پاس ورڈ ہیک کیا جا چکا ہے ۔سو اب میں آپ سے مخاطب ہوں ۔میں کون ہوں یہ بتانا ضروری نہیں ہے ۔ہاں مگر میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں صدر عوا م کو جواب دہ ہوتا ہے میرے لئے یہ بات حیران کن ہے مگر چونکہ میں عوام کا احترام کرتا ہوں اس لئے آپ کو جواب دینے کا موقع دینے کے لئے آپ سے خطاب کر رہاہوں ۔میں آدھے واشنگٹن کی زمین اپنے نام منتقل کر رہا ہوں ۔اقتدار اور پیسے کی کوئی ہوس نہیں مجھے، اس لئے باقی آدھی زمین میں اپنے بیٹے کے نام منتقل کر رہا ہوں ۔
تالیاں
بہنو اور بھائی میرا دل اچانک ہی چاہنے لگا ہے کہ میں جگہ جگہ جا کر بھیک مانگو ں سو آپ سب کو اب محنت اور ایمانداری دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں میں آپ کے لئے اپنی بہنا تے بھراواں لئے جگہ جگہ بھک منگا گا ۔۔ڈونٹ یو وری ۔۔میں سب تو پہلاں چین جاواں گا فیر امریکہ نئی امریکہ تو میں آگیا ہوں میں پھر ۔۔پھر ۔۔بس میں پوری دنیا جاؤں گا آپ کے لئے ۔۔
مجھے سب چور نظر آرہے ہیں ۔۔میری سب پر نظر ہے ۔۔
(یہ تو کسی تھرڈ ورلڈ کا بندہ لگتا ہے ۔مجمع میں ایک سرگوشی ہوتی ہے )
اوئے خاموش اوئے دادا میرا مرا ہے پر دادا میرے بچوں کا مرا ہے ''تمہارے کو پیٹ میں کیا تکلیف ہے !؟''
میں نے جمہوریت کے لئے ،جمہوری زمینوں کے لئے ،جمہوری دولت کے لئے اور آپ سب کے لئے اقتدار میں آنے کا فیصلہ کیا تھا ۔۔۔اب یہ جو میرے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ۔۔ان کو میں سب سمجھتا ہوں ۔۔
میں مانتا ہوں کہ میرا قصور صدر ہونا ہے اور اس سے بھی بڑا قصور یہ ہے کہ میں واشنگٹن کو اپنے نام کرنا چاہتا ہوں ۔۔مگر یہ سب آپ کے لئے اپنے بھائی بہنو کے لئے ۔۔۔
مجھے پتا ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے ۔۔مگر چونکہ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اس لئے یہ بھی میرا قصور ہے ۔۔
آپ سب تسلی رکھو میں امریکہ کو ریاستو ریاستی نہیں ہونے دوں گا مطلب میں اسے تقسیم نہیں ہونے دوں گا ،یہ بھی میرا ایک اور قصور ہے ۔۔اوئے کیڑے مکوڑو تم کیاجانو !پورے امریکہ پر اقتدار کا نشہ ہی الگ ہے ۔۔۔
میرے بھائی بہنو میں نے میرے خاندان نے دولت کے لئے معاف کیجئے گا جمہوریت کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں ۔۔یہ بھی میرا قصور ہے ۔۔
ہم نے اپنی زندگیاں اقتدار کے لئے معاف کیجئے گا ہم نے اپنی زندگیاں جمہوریت کے لئے وقف کر دی ہیں ۔۔
ہم امریکہ کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے ۔۔
ۤآپ میری اس بات کا یقین اس بات سے کریں کہ میرا دو سال کا پوتا بھی کھیلتے کھیلتے یہ کہتا ہے
امریکہ چاہیے ،امریکہ چاہیے ،امریکہ چاہیے
امریکی کچھ سمجھے اور کچھ نہ سمجھے مگر تالیاں ۔۔۔۔

Wednesday, January 20, 2010

شاعر حضرات اور قلبی واردات

بھائی جان کی شاہکار تحریر حال ہی میں نظر سے گزری ،جس میںانہوںنے خواتین شاعرات کی قلبی وارداتوں سے انکار کا شکوہ کیا ہے ،شاید کہیں یہ گمان ہو کہ اگر قلبی وار داتوں کو اعتراف موجودہ نسل کی شاعرات کر لیں تو بیشتر کی زبان پر ایک ہی نام ہو ۔۔۔۔یوں بد نام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
ہمارا خیال ہے کہ بھائی جان کی شاعر حضرات کی قلبی وارداتوں پر روشنی ڈالنی چاہیے تھی کیوں کہ ان سے بہتر یہ کام کوئی نہیں کر سکتا ماشاء اللہ آپ خیر سے شاعر بھی ہیں ۔۔۔۔
ہم نے سوچا تھا کے اردو محفل پر ان کی تحریر کے نیچے یہ دھمکی نما جواب درج کر آئیں کہ کچھ اس بارے میں بھی لکھیئے مگر پھر سوچا دھمکی تو بزدل لوگ دیا کرتے ہیں ہم خود ہی کچھ لکھ لیتے ہیں ۔۔۔اور پڑھ بھی خود ہی لیں گے ۔۔
تو جناب بات کرتے ہیں شاعر حضرات کی ''قلبی وارداتوں ''کی ۔۔۔لیکن پہلے اگر ہماری تحریر کو بچے پڑھ رہے ہیں تو ان کی انفارمیشن کے لئے بتاتے چلیں کہ قلبی واردات کہتے کسے ہیں ۔تو جناب بچو !قلب کہتے ہیں دل کو اور واردات کہتے ہیں ۔۔بھئی کسی بھی چوری ،ڈکیتی وغیرہ وغیرہ کو ۔۔۔قلب کے آگے ''ی''کیا ہے ارے یہی تو وہ ''ی''ہے جس کی وجہ سے قلبی واردات رونما ہوتی ہے ۔میرا خیال ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔۔۔اگر نہیں سمجھے تو آپ واپس اسی راستے سے چلے جائیں جہاں سے اس بلاگ پر آئے ہیں ۔۔ویسے اگر آپ گوگل سرچ سے آئے ہیں تو یہ تو بتاتے جائیں کہ آپ تلاش کیا کر رہے تھے ۔۔۔کچھ لوگ ہمارے بلاگ پر سارہ پیلن کی تلاش میں آپہنچتے ہیں ۔۔ہمیں ان سے ہمدردی ہے۔۔اور اگر آپ سارہ پیلن کو نہیں جانتے تو ہمیں آپ سے بھی ہمدردی ہے ۔۔۔بھئی وہی سارہ پیلن جو ہمارے صدر صاحب کی ''واردات ''معاف کیجیے گا ''قلبی واردات ''کی وجہ سے پاکستان میں مشہور ہوگئی تھیں ۔
معاف کیجیے گا بات کہاں سے کہاں چلی گئی بس کیا کریں بات نکلے گی تو پھر دور تک تو جائے گی نا !
ہم بات کر رہے تھے کہ شاعر حضرات کی قلبی واردات کی ۔جناب قلبی واردات کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔۔تاریخ میں ایسے واقعات بھی ہیں جب کسی شہزادے نے ڈولی میں سے جھانکتا ہوا محض دوپٹے کا ایک پلو دیکھ لیا اور جناب بس پھر کیا تھا قلبی واردات ہوگئی ۔۔۔
ایک بات یہ بہت اہم ہے کہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔۔۔شاعر ہونے اور خاص کر مشہور شاعر ہونے کے لئے قلبی واردات کاہونا اتنا اہم نہیں جتنا اس کا بر ملا اور بار بار اعتراف کرنا ۔۔۔ورنہ لوگ آپ کو دو ٹکے کا بھی نہیں جانتے ۔۔۔۔سو بہت سوں نے مشہور ہونے کے لئے کئی کئی وارداتوں کے رونماہونے کا اعتراف کیا تب کہیں جاکر نام ور ہوئے ۔۔
پچھلے ایک سال کے دوران ہمیں ہر بڑے شاعر کی برسی پر ان کے احباب میں سے کسی کی تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔۔۔اور نہایت معذرت کے ساتھ ہم اس نتیجے میں پہنچے ہیں کہ اگر کوئی اس قدر ''ٹن ''حالت میں رہے گا تو پھر ''واردات'' کا ہونا تو عجب نہیں ،نہ ہونا البتہ ایک عجیب واردات ہوگی ۔۔۔
مے نوشی اور جام و سرور کا ذکر یوں ملا گویاہمیں محسوس ہونے لگا کہ اگر اس دنیا میںکوئی بڑا نام بنانا ہے تو پھر ۔۔رہنے دوابھی ساغر ومینا میرے آگے
''قلبی واردات ''کی اہمیت کا اندازہ آپ یہاں سے لگائیے کہ ایک سید زادے نے تو شاعری میں بڑا نام پیدا کرنے کے لئے اپنے ابا حضور کی نصیحت پر باقاعدہ قلبی واردات کا اہتمام کیا اور عشق فرمایا ،اور یوں یہ سعادت مند بیٹا اپنے ساتھ ساتھ اپنے ابا حضور کا نام بھی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے رقم کر گیا ۔۔۔
قربان جائیے ایسے سعادت مند بیٹے اور اس کے ابا پر۔۔۔
سو ثابت ہوا کہ قلبی واردات شاعری میں بڑا نام پیدا کرنے کے لئے از حد ضروری ہے ۔۔۔۔اگر ذرا غور فرمائیے تو شاعرات کے لئے بھی یہی اصول بہت حد تک لاگو دکھائی دے گا ۔۔۔
ایک بڑے شاعر کی قلبی واردات کا ذکر ایک مصنف کی زبانی دے رہے ہیں ،شاعراور مصنف کا نام ہم نقصِ امن کے خطرے کے پیش نظر نہیں دے رہے ،کیونکہ بہرحال ان کے مداحوں کی کمی نہیں ہے ۔۔۔اور ہم اپنے بلاگ پر دنگا فساد بالکل بھی پسند نہیں کرتے ۔۔۔سو اگر آپ نام پہچان جائیں تو یہ آپ کا اپنا حسن ِنظر ہوگا اسے اپنے تک ہی محدود رکھیئے گا ،
مصنف شاعرحضرت کی زبانی لکھتے ہیں :
''غالباً نویں یا دسویں جماعت کے دن ہوں گے جب وہ زندگی میں آئی تھی ۔مجھ سے ایک سال آگے تھی وہ ۔مجھے اس کے خدو خال اب بھی یاد ہیں ۔وہ بہت حسین تھی ،شاید اس لئے کہ اس عمر میں سبھی لڑکیاں حسین ہوا کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔وقت گزرتا چلا گیا اور پھر اک روز اس کی شادی ہوگئی ۔کتنا ہی عرصہ اس فسوں میں گزار دیا کہ وہ شریک سفر کیوں نہ ہوسکی ۔وہ چلی گئی تو پھر جو در ملا اسی در کے ہوگئے ۔کتنے ہی حسین چہرے تھے ،جو قریب آئے ،وقت گزارا اور چلے گئے ۔''
ماشاء اللہ یہ یاد نہیں کہ نویں میں تھے یا دسویں میں یہ یاد رکھنا شاید ضروری بھی نہیں تھا ۔۔۔آگے ملاحظہ ہو اس محبت کا انجام :
''پھر یوں ہوا کہ اک روز اچانک اس سے ملاقات ہوگئی ۔اسے دیکھا اور بس دیکھتے رہ گئے ۔رخسار ڈھلکے ہوئے ،ہونٹوں پر ویسی زندہ مسکراہٹ بھی نہیں ،ویران ساچہرہ ،آنکھیں کشش سے خالی ،بدن بے ڈول ور بھدا ۔اور وہ جس کے حسن کو نگاہ سہہ نہیں پاتی تھی اب اس کے ساتھ وقت گزارنا مشکل تھا ۔اس ملاقات کے بعدکبھی اسے کھو دینے کا احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔''
قربان جائیے اس سادگی پر ۔۔۔آج کے دور میں جب ڈھلکے رخسار ،بڑھے پیٹ اور بہت سی خامیاں ،ٹمی ٹک،لائپو سیکشن ،بو ٹیکس،اور ناجانے کیا کیا کچھ جو کاسمیٹکس سرجری اور لیزر تھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے جس سے سب خامیاں اور وقت کی دی گئی نشانیاں مٹ جاتی ہیں اور آپ کا محبوب پھر سے ''نیا کا نیا ''ہوجاتا ہے ۔۔۔۔اگر آپ اس میں محض حسن ہی تلاشتے ہیں تو ۔۔۔۔
یہ بھی عجب ستم ہے یا واردات ہی کہہ لیجیے کہ گر ''ہیروئن ''آپ کو نہ ملی تو اس کا زہر ساری نسل کی رگوں میں اتارنے چل پڑے ۔۔۔جس عمر میں انہیں آگے بڑھنا ہو اس میں وہ ''در در کی خاک چھاننے ''نکل کھڑے ہوں ۔۔۔۔

Tuesday, January 12, 2010

ہلتی ہوئی چھڑی

چلہ کاٹنے والا شخص41گھنٹے بعد قبر سے زندہ نکل آیا،یہ شخص ایک لمبے عرصے سے بیماری اور پریشانی میں مبتتلا تھااس کے ’’جعلی پیر ‘‘نے اس کے تمام پریشانیوں کا حل یہی حل بتایا تھا کہ وہ خود کو ایک قبر میں دفن کر لےتو اپنی منزل پالے گا اور اس کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
صفدر علی نامی نوجوان نے دفن ہوتے ہوئے قبر میں ایک سوراخ رکھ لئا جس میں سے ایک ڈنڈی باہر نکال دی اور اپنے ماں باپ سے کہا کہ جب تک ڈنڈی ہلتی رہے سمجھنا میں زندہ ہوں اور جب یہ ہلنا بند ہوجائے تو مجھے یہاں ہی دفن رہنے دینا ......
اس کے ماں باپ نے بے چین ہوکر اسے قبر سے نکال لیا.....
صفدر علی کی کہانی سے ایک قوم کی داستان یاد آتی ہے ....
یہ قوم غربت ،جہالت کے مرض میں مبتلا تھی ....آمریت کا ایک عرصے سے راج تھا ......
اس قوم کو بھی چند’’جعلی پیروں‘‘نے یہی بتایا کہ وہ خود کو ’’جمہوریت کی قبر ‘‘میں دفن کر لیں تو وہ منزل پالیں گے اور ان کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی ......
سو اس قوم نے بھی بجلی،گیس ،بیروزگاری اور ناجانے کتنی ہی پریشانیوں اور بیماریوں سے نجات حاصل کرنے اور اپنی منزل پانے کے لئے خود کو ’’جمہوریت‘‘ کی قبر میں اتار لیا.......
جہاں اس کا دم پہلے سے بھی زیادہ گھٹنے لگا .....
صفدر علی کی طرح اس قوم نے بھی اس قبر میں ایک سوراخ کر کے عدلیہ کی چھڑی رکھ لی جو اس کے زندہ ہونے کی تصدیق کر تی رہی .....
المیہ تو یہ ہے کہ صفدر علی کی طرح اس قوم کے کوئی ماں باپ بھی نہیں ہیں جو اسے وہاں سے نکالنے کے لئے بے قرار ہوجائیں .....
بس جمہوریت کی قبر کے سوراخ سے نکلی ایک ہلتی ہوئی چھڑی ہے ........
کیا جانے یہ چھڑی کب تک ہلتی رہے .....

Saturday, January 9, 2010

نئے دن

2047
کا سورج طلوع ہوئے دس دن گزر چکے ہیں ۔۔۔کسے خبر تھی کہ یہ سورج پاکستان کے لئے ایک بالکل نئی صبح کی نوید لانے والا ہے ۔۔۔۔گر معلوم ہوتا تو ہم کسی زندہ دل قوم کی طرح اس کا بھر پور استقبال کرتے خوب چراغاں کرتے اور جشن مناتے ۔۔۔
زیادہ پرانی بات نہیں ہے آپ سبھی کو یاد ہوگا نئے سال کا پہلا دن کتنی حیرتیں لئے ہوئے تھا۔۔۔۔پورا دن گزر گیا مگر کہیں سے کوئی خود کش حملے کی اطلاع نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔
اور پھرسال کا پہلا اتوار کتنا عجیب لگ رہا تھا ،جب شاید پہلی بار پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے چھٹی کادن دھماکوں کی خبروں کے مزے اور سیاستدانوں کی کرپشن کہانیوں کے چسکے لینے کے لئے ٹاک شو کی تفریح کا مزہ نہیں لیا تھا ۔۔۔کتنا عجیب لگ رہا تھا نا یہ سب اور کتنا مختلف بھی۔۔۔
پھر اس کے بعد کے سارے دن سبھی کے لئے نئے تھے ۔۔۔یہ نیا پن سبھی کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔قوم جو ایک عرصے سے بری خبریں سننے کی عادی ہوچکی تھی ۔۔۔۔جب بھی کوئی دھماکہ ہوتا ،کوئی خود کش حملہ ،توجہاں کئی گھروں میں قیامتیں ٹوٹ جاتیں ۔۔۔۔گھر اجڑ جاتے ۔۔۔۔۔۔ایسے میں میں جب ایک طرف یہ سب قیامتیں ٹوٹتیں ،تو دوسری طرف وہ لوگ جو اس سے متاثر نہیں ہوتے تھے ۔۔۔فوراً ٹی وی آن کرتے ۔۔۔جگہ جگہ ہوٹلوں ،بازاروں ،دکانوں میں ٹی وی کی آواز اونچی کر کے یوں مجمع لگتا گویا ''وارث''لگ گیا ہے ۔۔۔اس لمحہ بہ لمحہ کی سنسنی خیز''بریکنگ نیوز ''میں سے کچھ وقت نکال کر چند ذی ہوش لوگ فوراً فون اور ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے تمام ''ممکنا''عزیزوں کی خیریت معلوم کر لیتے اور پھراس ''تماشے ''میں کھوجاتے ۔۔۔۔
پل پل کی خبر رکھنا بہت ضروری تھا ۔۔۔۔کتنی لاشیں ۔۔۔کتنے زخمی ۔۔۔دھماکہ خود کش تھا یا بم نصب تھا ۔۔۔۔یہ سب جاننا میرے اور آپ کے لئے اتنا اہم تھا کہ ہم چینل بدلنے کا سوچتے بھی نہیں تھے ۔۔۔اور ایسے میں ٹی وی بند کر دینا تو خیر حماقت تھی ہی ۔۔۔
سانحے کی لمحہ بہ لمحہ خبریں ہم تب تک سنتے رہتے جب تک کوئی دوسرا سانحہ نہ ہوجاتا۔۔۔۔
پوری قوم ایک ''ایڈکشن''کا شکار تھی ۔۔۔۔سانحات کی پل پل کی رپورٹ سننے کی ''ایڈکشن''۔۔۔۔
مگر 2047کا سال پہلے دن سے ہی مختلف تھا ۔۔۔بہت مختلف ۔۔۔۔پاکستان میں ایک نئے دور نے جنم لیا ۔۔۔۔۔دہشت گردی ،غربت،جہالت اور ناجانے کتنے ہی بوجھ 2046کی آخری رات نے اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے ۔۔۔۔
اب ہم ایک نئی قوم ہیں ۔۔۔۔۔۔ایک با ہمت ،پر امن ،اور باعزت قوم۔۔۔۔۔۔
یہ سب کیسے ممکن ہوا اس کی کہانی پھر کبھی سہی ۔۔۔۔۔۔
فی الحال تو یہاں صرف ایک مشکل کا ذکر ضروری ہے ۔۔۔جس کا اس ''نئے پاکستان ''کے ایک خاص طبقے کو سامنا ہے اور وہ طبقہ ہے ''میڈیا''
اب کچھ مخصوص کالم نگار ہاتھوں میں قلم لئے پہروں سوچتے ہیں کہ کیا لکھیں ۔۔۔کسی کی کرپشن کو بے نقاب کریں ۔۔۔کوئی تو ہو جس کے ''کرتوت ''لکھ کر عوام کو اپنا گرویدہ بنائیں۔۔۔
اور ایک اور عجیب بات آپ نے نوٹ کی ہوگی نیوز چلتے چلتے اچانک بالکل خاموش نیلی سکرین درمیان میں آجاتی ہے ۔۔۔یہ ایسے ہی ہے جیسے مارشل لاء کے زمانے میں سنسر شپ کے باعث اخباروں نے ان خبروں کی جگہ خالی چھوڑنی شروع کر دی تھی جہاں کی خبریں سنسر ہوتی تھیں ۔۔۔۔۔۔اسی طرح نیوز چینلز نے جو ٹائم خود کش دھماکوں کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا وہ ٹائم اب بالکل خالی ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔بالکل خاموش نیلی سکرین ۔۔۔۔۔۔
ویسے یہ قانون بننا چاہیے کہ خالی سکرین نہ چھوڑی جائے بلکہ اس پرلازماً کوئی نیوز دی جائے ۔۔۔۔ایسا ہوا تو یقینا نیوز چینلز کو ''اچھی خبریں ''دینے کا سلسلہ شروع کرنا پڑے گا ۔۔کیونکہ اب پاکستان میں صر ف اچھی خبریں ہی لمحہ بہ لمحہ اور ہر پل ہوں گی ۔
ایسے میں ان نیوز چینل کا کیا ہوگا جو خود کش دھماکوں کے بد ترین دور میں کھمبیوں کی طرح اگ آئے تھے ۔۔۔آپ کو اور مجھے ہر وقت باخبر رکھنے کے لئے ۔۔شاید وہ بند ہوجائیں ۔۔۔یا پھر وہ تفریح فراہم کرنے کا کوئی اور طریقہ سوچیں ۔۔۔
کرپشن اور دہشت گردی سے پاک اس ''نئے پاکستان ''میں بہت سے نیوز چینلز،رپورٹرز،اور ٹاک شوز کا مستقبل اب ایک سوالیہ نشان ہے ۔۔۔
مگر پاکستان کا مستقبل اب بالکل روشن ہے ۔۔۔۔
خدا کرے یہ دس دن دس صدیوں پر محیط ہوجائیں ۔۔آمین